مصنعوعی ذہانت انسانیت کےلے ممکنہ تباہ کن خطرہ،نیا پینڈورا باکس کھل گیا
فوٹو: اسٹاک
لندن: مصنعوعی ذہانت انسانیت کےلے ممکنہ تباہ کن خطرہ،نیا پینڈورا باکس کھل گیا،برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا اور چین سمیت 28 ممالک کی طرف سے اعلامیہ پر دستخط کردیے گے۔
اس حوالے سے آج نیوز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ تیزی سے ابھرتی ہوئی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے نمٹنے کے لیے پہلے بین الاقوامی اعلامیے میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ انسانیت کے لئے ممکنہ طور پر تباہ کن خطرہ ہے،
رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کی میزبانی میں ہونے والی ’اے آئی سیفٹی سمٹ‘ کے پہلے دن 28 حکومتوں نے اعلامیے پر دستخط کیے۔ ان ممالک نے مصنوعی ذہانت سے متعلق سیفٹی ریسرچ پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’ناقابل یقین‘ قرار دیا،سمٹ میں شرکت سے قبل اپنے خطاب میں سونک نے کہا کہ، ’ہمارے بچوں اور پوتے پوتیوں کے مستقبل میں مصنوعی ذہانت جیسی تکنیکی ترقی سے زیادہ تبدیلی لانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی‘۔
پی اے نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک نے متنبہ کیا، ’پہلی بار ہمارے پاس کچھ ایسا ہے جو ذہین ترین انسان سے کہیں زیادہ ہوشیار ہونے جارہا ہے ۔ یہ میرے لئے واضح نہیں ہے کہ ہم واقعی ایسی چیز کو کنٹرول کر سکتے ہیں‘۔
اعلامیہ برطانیہ اور خاص طور پر رشی سونک کے لیے اسفارتی کامیابی کی علامت ہے، جو اس بات پر فکرمند تھے کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز بغیر نگرانی کے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
چین نے اعلامیے پر دستخط کیے، جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا، ’ہم جامع اقتصادی ترقی، پائیدارترقی اورجدت طرازی کو فروغ دینے، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور عوامی آزادیوں کو فروغ دینے سے متعلق مصنوعی ذہانت پر تعاون کے لیے بین الاقوامی برادری کی اب تک کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں‘۔
جنوبی کوریا نے چھ ماہ کے اندر اس طرح کے ایک اور سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ فرانس ایک سال میں ایک اجلاس کی میزبانی کرے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک، اس بارے میں بہت کم بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ مصنوعی ذہانت کے قوانین کا ایک عالمی سیٹ کیسا نظرآسکتا ہے یا انہیں کس کو تیار کرنا چاہئیے.
سمٹ کے حوالے سے کچھ برطانوی عہدیداروں کو امید تھی کہ دیگر ممالک حکومت کی مصنوعی ذہانت کی ٹاسک فورس کو بڑھانے پر رضامند ہوں گے تاکہ اسے عوام کے سامنے جاری کرنے سے پہلے دنیا بھر سے نئے ماڈلز کی جانچ کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں بائیڈن انتظامیہ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں اوپن اے آئی اور گوگل جیسی امریکی مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں کو اے آئی ماڈلز جاری کرنے سے قبل اپنے سیفٹی ٹیسٹ کے نتائج حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
نائب صدر کملا ہیرس نے اس کے بعد لندن میں مصنوعی ذہانت پر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے موجودہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے ساتھ ساتھ مستقبل میں مزید جدید مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو ریگولیٹ کرنے کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔
دوسری طرف یورپی یونین ایک مصنوعی ذہانت بل کی منظوری کے عمل میں ہے ،جس کا مقصد ریگولیشن کے لئے اصولوں کا ایک مجموعہ تیار کرنا اور مخصوص ٹکنالوجیوں جیسے براہ راست چہرے کی شناخت کے لیے قواعد متعارف کرانا ہے۔
Comments are closed.