نیب ترامیم کیس ، جسٹس منصور علی شاہ کا 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری

46 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد:نیب ترامیم کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کا 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیاگیا جس میں کہاگیا ہے کہ عدلیہ قانون سازی کا اس وقت جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو۔

نیب ترامیم سے متعلق کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کا 27 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیاگیاسپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا،سپریم کورٹ نے 2:1 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے بنجمن کارڈوزو کے قول سے نوٹ کا آغاز کیا، کارڈوزونے کہا تھا اکثریت کی آواز طاقت کی فتح کی ہو سکتی ہے، انٹونیا سکالیا نے درست کہا تھا اختلاف عدالت کے وقار کو کم کرنے کے بجائے بڑھاتا ہے،عدالتوں کو ہنگامہ آرائی سے بالا اور بدلتی سیاست سے بے نیاز ہوکر جمہوریت کے مستقبل پر نگاہیں جمانی چاہئیں،سیاسی جماعتوں کے برعکس عدالتوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں،عدالتوں کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے بھلے عوامی جذبات ان کے خلاف ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا،عدلیہ قانون سازی کا اس وقت جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو، قانون سازوں کے مفاد کو سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،درخواست گزار نہیں بتا سکا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا فوجداری قوانین کے احتساب کیسے بنیادی حق ہے۔

نیب ترامیم کے حوالے سے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کا موقف غیر یقینی ہیں، اگر درخواست گزار کے بنیادی حقوق سے متعلق ایسا موقف تسلیم کیا گیا تو پارلیمان کیلئے کسی بھی موضوع پر قانون سازی مشکل ہوگی،عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔

Comments are closed.