چیف جسٹس اورجسٹس منیب میں نوک جھونک،ایکٹ سپریم کورٹ امور میں مداخلت ہے، جسٹس اعجاز الاحسن
فائل:فوٹو
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا، چیف جسٹس اورجسٹس منیب میں نوک جھونک،ایکٹ سپریم کورٹ امور میں مداخلت ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بنچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے جو کہ براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
ایم کیو ایم کے فیصل صدیقی نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک بار کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا، اور دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دوں گا، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔
اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ تھا کہ کیا ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں۔
چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس پر وکیل فیصل صدیقی ہنسے تو چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں، 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں، کئی کیسز التوا کا شکار ہیں، میری اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے کہ اپنے سوالات روک کر رکھیں، کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو وکیل کی دلیل پوری تو ہونے دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں لاء کی تعریف لکھی ہے، رولز بناتے وقت اس بات پر کوئی ابہام نہیں تھا کہ لاء کا کیا مطلب ہے۔
ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کر دی اور ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کیخلاف درخواستیں میرٹ پر خارج کی جائیں۔
دوران سماعت بار بار سوال پوچھنے پر چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کو ٹوک دیا، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں بھی اس عدالت کا ایک جج ہو، سوال پوچھنا ایک جج کا حق ہے۔
چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے سوال ضرور پوچھیں لیکن دلائل مکمل ہونے کے بعد، اگر ہم نے پہلے ہی اپنے ذہن بنا لئے ہیں تو ہم فیصلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے بار بار ٹوکا جا رہا ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل کو کون ٹوک رہا ہے۔
چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے۔
چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا، جسٹس منیب اختر نے جواب دیا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس قانون سے سپریم کورٹ کی اندرونی ورکنگ میں مداخلت ہوئی یا نہیں؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ سبجیکٹ ٹو اور لاء کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، کیا یہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت ہے یا نہیں؟
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جو سپریم کورٹ کو اپنے رولز بنانے سے روکے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاوں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہوگا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لیجسلیٹیواینٹریز پارلیمنٹ کو سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں، آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا، سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ رجسٹرار آفس کے آرڈر کے خلاف اپیل بھی ہوتی ہے۔
جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایڈمنسٹریٹو آرڈر اور ایڈمنسٹریٹو اپیل ہوتی ہے، جسٹس منصورشاہ نے کہا کہ بھلے ایڈمنسٹریٹواپیل ہو، ہمیں اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے۔
وکیل فیصل صدیقی کے مخصوص انداز میں جھوم کر دلائل دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں آپ کی فزیکل موومنٹ کو انجوائے کر رہا ہوں، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ واحد ورزش ہے جو میں کر سکتا ہوں۔
Comments are closed.