عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، جسٹس منیب

پریکٹس اینڈ پروسیجر کی فل کورٹ سماعت

57 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: پریکٹس اینڈ پروسیجر کی فل کورٹ سماعت،فریقین سے 25 ستمبر تک جواب طلب،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فائزعیسی کی سربراہی میں سارا دن سماعت کےبعد فریقین کو ہدایت کی کہ وہ 25 ستمبر تک جواب جمع کرائیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسجر بل کیس کی سماعت ہوئی جو کہ ٹی وی چینلز پر براہ راست سماعت دکھائی گئی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے، چیف جسٹس کو احتساب سے بالاتر بنانا چاہتے ہیں، مجھے اپنے لئے ایسی پاور نہیں چاہئیں، قانون اچھا بنائیں یا نہیں، پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد وحید فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا،جواب میں حکومت نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں،استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔

تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی اختیار واپس نہیں کیا گیا،میرٹ پر بھی پارلیمانی قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

مجھے اپنے لئے ایسی پاور نہیں چاہئیں،چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق درخواست گزار چیف جسٹس کو احتساب سے بالاتر بنانا چاہتے ہیں، مجھے اپنے لئے ایسی پاور نہیں چاہئیں، عوام کے ٹیکس پر چلنے والی عدالت کیا میری مرضی پر چلے گی؟۔

انہوں نے کہا کہ بعض قوانین مجھے پسند نہیں اس کا مطلب یہ نہیں وہ غلط ہیں۔ قانون اچھا بنائیں یا نہیں، پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے، اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم سوموٹو لے چُکے ہوتے۔

خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، اچھی چیز غیر آئینی طریقے سے کی جائے تو غلط ہے۔ وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے لیکن پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں؟ جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟

خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول 4کے مطابق سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ضوابط خود بناتی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟ وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں جواب بعد میں دوں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا خواجہ صاحب آئینی شقوں کو صرف پڑھیں، تشریح نہ کریں جبکہ جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟

معاملات آسان بنانا چاہ رہا ہوں لیکن لگتا ہے آپ ایسا نہیں چاہ رہے، خواجہ طارق رحیم 

چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں، خواجہ صاحب میں آپ کیلئے معاملات آسان بنانا چاہ رہا ہوں لیکن لگتا ہے آپ ایسا نہیں چاہ رہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل کی قانون سازی کیلئے درخواست دائرکر دیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور ہے، عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی، جسٹس منیب کے ریمارکس.

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ہے، اگر پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط ہے، میں یہ سمجھا ہوں آپ کی بات سے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر مؤثرکیا جاسکتا ہے؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورزکو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟

وکیل خواجہ طارق کا کہنا تھا آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججزکے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جس شق پرآپ کو اعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔

چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا لامحدود اختیارات ہو ں تو آپ مطمئن ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ 

جسٹس اطہرمن اللہ نے خواجہ طارق سے پوچھا کہ چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا لامحدود اختیار ہو تو آپ مطمئن ہیں؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ یہ تو بتائیں کہ کس آئین کے آرٹیکل سے ایکٹ متصادم ہے؟

دوران سماعت جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا پارلیمنٹ کہتی ہے کہ 5 ججز سے کم کیس نہیں سن سکتے، اگرکل پارلیمنٹ کہے کہ فلاں کیس کو 7 ججز نہیں سنیں توکیا ہو گا؟ امریکا میں رائٹ آف ابارشن کا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جس کا کام آئین کا دفاع کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے دلائل سے محظوظ نہیں ہو پا رہا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا عدلیہ کی آزادی صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی بھی ہونی چاہیے، عدلیہ کو اندر سے مضبوط ہونا چاہیے، صرف چیف جسٹس کے پاس بینچزکی تشکیل کا اختیار ہونا توغلط ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا باہر کے ممالک میں بیلٹ سے بینچ بنتے ہیں، وہاں چیف کے پاس بینچ تشکیل دینے کے اختیارکا تصورتک نہیں، یہ کیا بات ہوئی چیف اپنے پاس درخواست رکھے رہے اوربینچ نہ بنائے۔

درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو غیرآئینی ہے جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا آرٹیکل 141 کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا، اس سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟، پارلیمنٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا۔

جسٹس منیب اختر بولے کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی کو خطرے کی کوئی بات نہیں، کیا چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات عدلیہ کی آزادی ہے۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے؟، یہ قانون صرف پارلیمنٹ سے نہیں ہوسکتا، فل کورٹ ہی کرسکتا ہے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریکوڈک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 184۔3 کے تحت ریکوڈک کا معاہدہ اڑا دیا، فیصلے سے عدالت عظمیٰ کو نہیں بلکہ ملک کو 6.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

نجی ٹی وی سما نیوز کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کیلئے ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ قانون کے ذریعے سارے اختیارات عدالت کے اندر ہی رکھے گئے، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، اٹارنی جنرل 

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں۔ منصور عثمان نے ایکٹ 1935ء، 1956ء اور 1962ء کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1962ء کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973ء کے آئین میں عدلیہ کو اسی لئے آزاد بنایا گیا ہے، 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان سے نہیں ہٹایا گیا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اب میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا، بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں، اس کی اہمیت کیا ہے؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر بحث شروع کی تھی وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کر دی، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کردیا جائے، غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائیکورٹ سے کم اختیارات ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 184/3 پڑھنے کی ہدایات کردی۔ کہا کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کرسکتی ہے، ہم یہ معاملہ اپیل کے فورم کے طور پر ہی سن سکتے ہیں، 183 تھری میں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب بار بار پوچھنے پر وکیل درخواست گزار نے قانون کو اچھا کہا، کیا اب یہ درخواست بنیادی حق کے پیمانے پر پورا اترتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس درخواست کو اسی بنیاد پر خارج ہوجانا چاہئے۔

پریکٹس وپروسیجربل فل کورٹ،مجھے سوال کرنےدیں،چیف جسٹس کی مداخت پرجسٹس منیب نے اپنی بات جاری رکھی،جسٹس منیب اختر نے پوچھا تھا کہ بنیادی حق کو چھوڑیں یہ بتائیں مفاد عامہ کا معاملہ ہے یا نہیں؟۔

چیف جسٹس نے مداخلت کی جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مجھے اپنا سوال مکمل کرنے دیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی آئین میں رہ کر کرے۔

کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں؟جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ نے پوچھا یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے، فل کورٹ کیخلاف اپیل کہاں جائے گی۔

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اپیل تو متاثرہ فریق نے کرنا ہوتی ہے، اس کیس میں متاثرہ فریق کون ہوگا؟، ہمیں ایک دو الفاظ میں نہیں پھنسنا چاہئے، پورا آئین دیکھنا چاہئے، متاثرہ فریق وہی ہوتا ہے جسے کوئی نقصان پہنچا ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ذرا آرٹیکل 10 اے پڑھ لیں تاکہ ہماری یادداشت تازہ ہو جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے میں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے اپنے الگ الگ خیالات ہیں، آپ آگے چلیں، آپ نے ہمیں مطمئن کرنا ہے ہم نے آپ کو نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین سپریم کورٹ احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا، اگر آئین نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جاسکتا ہے؟۔

جسٹس مظاہر نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، قانون بات ہی سپریم کورٹ اختیارات کی کررہا ہے تو ہائی کورٹ کیسے دیکھے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے۔

جسٹس عائشہ نے کہا کہ دونوں ایک ہی ہیں تو کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا، جو آبزرویشن دی جارہی ہیں آپ سوال نوٹ کریں، خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جارہی ہیں وہ بیانات ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا رولز 1980ء میں سپریم کورٹ نے بنائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے؟، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، کیا ججز گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے، ہم علمی بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، یہاں فل کورٹ آخری میٹنگ 2019ء میں ہوئی تھی، اس دوران زیر التواء مقدمات کی تعداد 27 ہزار بڑھ گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کوئی کہتا ہے میں بلاتا ہی نہیں فل کورٹ میٹنگ تو کیا کریں؟، اگر ایسا نہیں کرنا تو ہم پھر ریاست سے تنخواہ نہ لیں، آپ بھی ادھر ادھر کھسک رہے ہیں نکتے پر نہیں آرہے، آج صبح سے 150 زیر التواء کیسز کا اضافہ ہوچکا ہوگا، یہ کیس اگلے مہینے تک چلا کر ںظام کو تباہ کرنا ہے تو جاری رکھیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جب تک کوئی قانون برخلاف آئین نہ ہو اس کو سپورٹ کرنا چاہئے، اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے کچھ ایسے فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی، یہاں لوگ ادھار واپس نہ ملنے پر 184/3 کی درخواست ڈال دیتے ہیں، درخواست مسترد ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب معاملہ ہائیکورٹ نہیں جاسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دراصل ہم نے خود پارلمینٹ کو مجبور کیا ہے کہ وہ یہ قانون بنائے، ہم نے اپنے رولز میں 1980ء سے ترمیم ہی نہیں کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ہم نے اپنا کام نہیں کیا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ میرے سوال کا جواب نہیں آیا کہ فل کورٹ کیخلاف اپیل کہاں جائے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا حق دیا کیسے جاسکتا ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 185 کے تحت ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں سنتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر میں 184/3 کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق دیا گیا۔

فریقین کو 25 ستمبر تک جواب جمع کرانے کا حکم کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کیخلاف اپیل کہاں جائے گی، جسٹس عائشہ کے سوالوں کا کیسے جواب دیں گے، اس کیس میں اپیل کا حق پہلے بیٹھنے والے بنیچ نے پہلے دن ہی ختم کردیا تھا، 8 جج بیٹھے تھے اس کیخلاف اپیل کیلئے 9 جج موجود نہیں تھے۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان مکمل کرلئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ ایسی آزادی کا کیا کرنا جس سے ملک کی آزادی خطرے میں پڑ جائے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے استفسار کیا کہ یہ قانون عدلیہ پر زیر التواء مقدمات کا بوجھ مزید نہیں بڑھا دے گا؟۔ جسٹس میاں علی مظہر نے ریمارکس میں کہا اِس قانون کے اطلاق سے 1947ء کے بعد سے سارے کیسز اپیل میں آجائیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تمام فریقین کو 25 ستمبر تک جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس نے لاہور سے ویڈیو لنک پر حاضر وکیل کو آئندہ سماعت پر اسلام آباد آنے کی ہدایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے چاہا تھا آج کیس کی سماعت مکمل کریں مگر ممکن نہیں ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے وقفے میں اپنے 2 سنئیر ججز سے مشاورت کی،آئندہ سماعت تک کیلئے بینچز کی تشکیل کا عدالت نے راستہ نکال لیا، کیس کے فیصلے تک بینچ چیف جسٹس 2 سینئر ججز کی مشاورت سے ہی تشکیل دیں گے۔

سپریم کورٹ کے ججز جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اوپن کورٹ میں بھی رضا مندی دی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آج کی سماعت کا آرڈر لکھوا دیتے ہیں، تحریری جوابات کیلئے فریقین کو 25 ستمبر تک کی مہلت دے دی اور سماعت 3اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے رواں سال 30 مارچ کو قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلقہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کثرت رائے سے منظور کیا تھا جس کے تحت از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کو سونپا گیا تھا۔

اس سے قبل یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔ تاہم 13 اپریل کو سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کے خلاف عبوری حکم جاری کیا جس میں اس پر عملدرآمد تاحکم ثانی روک دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اب تک 5 سماعتیں ہو چکی ہیں، 13 اپریل کو پہلی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 8 ججز پر مشتمل ایک لارجر بینچ بنا کر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناعی جاری کر دیا جو ابھی تک برقرار ہے۔

 اس سے قبل وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔ وفاقی حکومت نے موقف اپناتے ہوئے استدعا کی کہ پارلیمنٹ کے قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں لہٰذا درخواستیں خارج کی جائیں۔

وفاقی حکومت نے تحریری جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا جس کے مطابق پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے نیچے قانون سازی کر سکتی ہے اور آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی اور ایکٹ کے تحت کوئی اختیار سپریم کورٹ کا واپس نہیں لیا گیا، میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بینچ مل کر کام کریں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاخیر سے آنے پر معذرت خواہ ہوں، ہم نے براہ راست کوریج کی اجازت دے دی ہے اور براہ راست کوریج میں خلل نا آئے اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ خواجہ طارق رحیم اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیے گا کیونکہ بینچ میں کچھ ججز ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ کیس سن رہے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں فل کورٹ کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 5 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر کیا کہیں گے، اگر ہم نے فل کورٹ پر کیس کا فیصلہ کرلیا اور قانون درست قرار دے دیا تو اپیل کا حق کہاں جائے گا۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میں اس پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب، پورا قانون پڑھیں، قوم کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ 1980 کے رولز کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کی عوام کے 57ہزار مقدمات انصاف کے منتظر ہیں، آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پڑھیں۔ وہ الفاظ استعمال نا کریں جو قانون میں موجود نہیں ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے 1980 کے رولز کا بھی حوالہ دیا۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ پہلے قانون پڑھ لیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کس رول کا حوالہ دے رہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ قانونی معروضات کی طرف آئیں، جو ماضی میں ہوا کیا آپ اسے سپورٹ کرتے ہیں، دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے بھی سوال کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہر طرف سے سوال ہوگا تو آپ کو جواب دینے میں مشکل آئے گی، آپ فوری طور پر سوال کا جواب نا دیں، سوالات نوٹ کرلیں اور پھر جواب دیں، جس طرح آپ چاہتے ہیں دلائل دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 191کو پڑھیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ شییڈول کے تحت سپریم کورٹ کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے قانون پڑھیں پھر تشریح کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اختیارات سماعت اور اختیار کا ذکر قانون میں نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ریگولیٹ کرے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 1989 کے رولز آئین سے متصادم ہیں۔

خواجہ طارق نے کہا کہ 1980 کے رولز فل کورٹ نے بنائے تھے اور وہ رولز درست ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین وقانون کو اس قانون نے غیر موثر کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ مستقبل کی بات نا کریں اور اپنے دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل میں اگر قانون سازی ہوئی تو آپ پھر چیلنج کر دیجیے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 3رکنی کمیٹی کو آرٹیکل 184کی شق 3 کے اختیار کی اجازت دینا کیا یہ عدالتی اختیار ہے یا انتظامی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15رکنی فل کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

سماعت سے قبل، چیف جسٹس پاکستان کی زیر صدارت فل کورٹ میٹنگ ہوئی جس میں 4 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں زیر التوا مقدمات، ?ترجیع بنیادوں پر سماعت والے کیسز، عدالتی کاروائی کی لائیو اسٹریمنگ اور کیسز کی سماعتوں کو موثر بنانے کے لیے گائیڈ لائنز کا جائزہ لیا گیا۔

فل کورٹ اجلاس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی لائیو اسٹریمنگ کی اجازت دی گئی ہے جس کے لیے کمرہ نمبر ایک میں کیمرے لگا دیے گئے جبکہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت ایک کی گیلری میں کیمرے لگا دیے گئے ہیں۔

پی ٹی وی کے چار کیمروں کا رخ بینچ کی جانب ہے جبکہ پانچویں کیمرے کا رخ کمرہ عدالت میں بیٹھے حاضرین کی جانب ہے۔ کمرہ عدالت میں وکلاء کی بڑی تعداد موجود ہیں جبکہ کمرہ عدالت نمبر 1 کی تمام نشستیں بھر گئی ہیں۔ملکی اور غیر ملکی میڈیا نمائندگان کی بھی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

دوسری جانب، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا پروٹوکول اور گاڑی لینے سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق نئے چیف جسٹس پاکستان کے لیے گھر سے سپریم کورٹ آتے ہوئے روٹ بھی نہیں لگایا گیا جبکہ چیف جسٹس کو عام ججز والی سیکیورٹی ہی دی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 1800 سی سی والی عام گاڑی میں سپریم کورٹ پہنچے۔

سپریم کورٹ پہنچے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیمبر کے باہر لگی تختی پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریر کیا گیا۔ چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھ دیا گیا، اس سے قبل ایسی روایت نہیں ملتی۔

Comments are closed.