انسانی اسمگلنگ کی روک تھام، پالیسیز بنانے اور ان پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے،سپریم کورٹ

45 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں بچوں اور انسانی سمگلنگ کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام، پالیسیز بنانے اور ان پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی.دوران سماعت سپریم کورٹ میں یونان کشتی حادثے کا تذکرہ ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یونان میں ہونے والا کشتی حادثہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے،سادہ لوح غریب شہریوں کو بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دیا جاتا ہے، شہری انسانی سمگلروں کے دھوکے میں آکر لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں،ملک میں خواتین اور بچوں کی بھی انسانی سمگلنگ ہو رہی ہے،کیا حکومت کے پاس بچوں کی سمگلنگ کے اعداد و شمار ہیں؟. ڈی وزارت انسانی حقوق نے جواب دیا بدقسمتی سے درست اعدادوشمار موجود نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاانسانی سمگلنگ کے حوالے سے بنائے گئے 2018 کے قانون میں ابہام ہے،بنیادی مسئلہ قوانین پر عملدرآمد کا نہ ہونا بھی ہے،انسانی سمگلنگ روکنے کا کام بھی پولیس کے ذمہ تھا، سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو بھی انسانی سمگلنگ روکنے کیلئے کردار ادا کرنے کا کہا،سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ پہلے طیبہ تشدد کیس بھی سنا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ آج نویں جماعت کی ہونہار طالبہ ہے،طیبہ کو اسکے گھر والے چھوڑ چکے تھے وہ ایس او ایس ویلج میں قیام پذیر ہے، بچوں کو صرف تحفظ دینا مقصد نہیں بلکہ انہیں مضبوط بھی بنانا ہے،ہمیں معاشرے کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے،ہمارا دینی فریضہ ہے کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا تحفظ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو بچوں، خواتین سمیت انسانی سمگلنگ کے روک تھام سے متعلق پالیسی مرتب کر کے دینا ہوگی،بچوں کو محنت مزدوری کرنے کے بجائے اسکولوں میں ہونا چاہئے.عدالت نے تمام صوبوں سے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام سے متعلق اقدامات کی رپورٹس طلب کر لیں۔

بعدازاں عدالت نے تعلیم سے محروم بچوں کے اعداد و شمار بھی طلب کر لیے۔کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی گئی۔

Comments are closed.