سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو مزید کام کرنے سے روک دیا، نوٹیفکیشن معطل

52 / 100

فوٹو : فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو مزید کام کرنے سے روک دیا، نوٹیفکیشن معطل، کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری کردیا، اعلیٰ عدلیہ کے لارجر بنچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن سےمتعلق آج کی سماعت کا حکم نامہ جاری کیا ہے.

عدالت کا 8 صفحات پر مشتمل حکم نامہ چیف جسٹس پاکستان ، جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے، کمیشن کے قیام کیخلاف درخواست دائر کرنے والے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے سماعت میں کوئی پیش نہیں ہوا۔

تحریری حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری کردیا اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کا 19 مئی کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کردیا گیا

آڈیو لیک کمیشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری، کمیشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے، اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی.

تحریری حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری کردیا اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کا 19 مئی کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کردیا گیا۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے معاملے پر اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی، واضح کیا گیا ہے کہ کمیشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقیت کے اصول کے تحت دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی نامزدگی کیلئے بھی چیف جسٹس سے مشورہ ضروری ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ججز کو نامزد کرنے سے ججوں پر شبہات پیداہوئے ۔

حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین کو تفصیل سے سنا ، شعیب شاہین کامؤ قف تھا کہ کمیشن کا نوٹیفکیشن آئین میں اختیارات کی تقسیم کے اصول کے منافی ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی ، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو مزید کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کیخلاف درخواستوں پر آج کی کاروائی کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معزرت سے کہہ رہا ہوں حکومت نے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وفاق نے ایک مرتبہ پھر لارجر بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے لارجر بینچ کی تشکیل پر سوال اٹھا دیا، کہا موجودہ لارجر بینچ یہ کیس نہ سنے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اعتراض کرنا آپ کا حق ہے،لیکن حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب، عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہو گیا آپ بیٹھ جائیں۔ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی سے کمیشن میں نہیں بٹھا سکتی۔عدالت کے انتظامی اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اختیارات سے متعلق قانون میں حکومت نے پانچ ججز کے بینچ بنانے کا کہاہے،نئے قانون میں اپیل کیلئے پانچ سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہا گیا ہے، ہمارے پاس ججز کی تعداد کم ہے،حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، اگر حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو بہتر راستہ بتاتے۔انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کئے،اس سے پہلے 3 نوٹیفکیشنز میں بھی حکومت نے ججز تجویز کیئے اور بعد میں واپس لے لئے۔

عابد زبیری کیوکیل شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ فون ٹیپنگ غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کئے۔ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے۔ حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کس ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی

چیف جسٹس نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے۔۔شعیب شاہین نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ٹیلیفون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے۔ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔بادی النظر میں آڈیو لیکس کمیشن عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں۔

چیف جسٹس نے کہاہمارے پاس صرف انصاف کی اتھارٹی ہے جس کا استعمال سرعام کیس سن کر کرتے ہیں۔ بظاہر آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں۔ حکومت کو عدلیہ کے معاملات میں روایات اور کوارٹرز کا خیال رکھنا چاہیے جج کی نامزدگی چیف جسٹس کاا ختیار ہے اج کی سماعت کا مختصر اور عبوری حکم نامہ جاری کریں گے

Comments are closed.