الیکشن 90 دن میں، ملتوی یا نئی تاریخ، سپریم کورٹ آج فیصلہ سنائے گی

59 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: الیکشن 90 دن میں، ملتوی یا نئی تاریخ، سپریم کورٹ آج فیصلہ سنائے گی. سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات التوا سے متعلق عمران خان کی درخواست پر پیر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا. 

 حکومت کی طرف سے بائیکاٹ اعلامیہ کے بعد عدالت نے حکومتی وکلا کا موقف نہ سنا، سیکرٹری دفاع کے سکیورٹی معاملات پر تحفظات سامنے آنے پر عدالت نے سر بمر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

انتخابات کیس کی کا آغازہی اعتراض سے ہوا۔اٹارنی جنرل نےمتفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی، عدالت سے استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔ 

تاہم عدالت نے درخواست میں اٹھائے گئے اعتراضات سے اتفاق نہ کیا، عدالت نے ججز کے بنچز سے الگ ہونے یا بنچز کے حوالے سےریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟

عدالت نے کہا 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟۔ 

چیف جسٹس نے جسٹس فائز ازخود معاملے پر فیصلے پر کہا ہے ایک تو جسٹس فائز عیسی نے فیصلہ نہیں دیا خواہئش ظاہر کیا تھی۔۔ دوسرا جب اسی بنچ کا ایک جج بنچ سے الگ ہوگیا تو فیصلہ سنانا بنتا ہی نہیں۔ 

سپریم کورٹ کا حکومتی اتحاد کے وکلا کو سننے سے انکار،فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو عدالت نے کا حکومت نے تو بائیکاٹ کررکھا ہے، فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ  سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ  آپ بائیکاٹ کرکے دلائل دینے آگئے۔

الیکشن التوا پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔

سیکرٹری دفاع کے سکیورٹی تحفظات پر چیف جسٹس نے کہا الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں. 

سیکرٹری خزانہ سے کہا صرف 20 ارب روپے کے تو اخراجات ہیں، وزیرخزانہ کہتے ہیں500 ارب کا ریونیو اکٹھا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی کیے جاسکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے۔

 عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری دفاع کو رپورٹ جمع کرانے کیلئے کل تک مہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں، سوال یہ ہے 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہوجائے گا؟،

 فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو 157 ارب روپے خسارہ تھا، وہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا۔

 چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں پھر کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔  کیا.

وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا موقف تحریری طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے موجودہ بینچ پر اعتراض عائد کردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، برّی فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ پنجاب کے پی میں الیکشن التوا کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کررہا ہے۔

وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔

حکومت نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے، سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں، انھیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا۔

حکومت نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔

سماعت شروع ہوئی تو پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کاہ کہ ہم کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ، ہمارے  درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا، اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔

جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں ، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا ، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، زیر حاشیہ میں بھی لکھا ہے کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔

اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز والے فیصلے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے قاضی فائز کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نےرواں سال پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعاء لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ تین دن میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے ، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ پانچ رکنی بینچ میں تھے؟

اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، برّی فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔

سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ر حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں، ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟ ، الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا۔

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیکورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے چاہئیں، سیکورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا ، جبکہ آئینی ضرورت نوے دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لیے 20 ارب چاہئیں، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے۔

جسٹس منیب نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں ؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا، کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی، ؟ ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، پانچ فیصد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔

اسد عمر روسٹرم پر آگئے اور بریفنگ دی کہ پہلے پانچ ماہ میں 5700 ارب روپیے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے ہے،آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، بیس ارب روپے بجٹ کا 0.02 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، بیس ارب کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں،

اسد عمر نے مزید کہا کہ ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک چار سو پچاس ارب روپیے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف دو سو ارب روپے خرچ کیے، کیسے ممکن ہے سات سو ارب کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے عدالت فیصلہ کرے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کرینگے۔

بعدازاں عدالت نے سماعت میں ایک گھنٹے کے لئے وقفہ کر دیا ۔

Comments are closed.