جائے پناہ یہی بازار اور بِکنا مجبوری
عائشہ جہانزیب
رنگین شِیشوں والی چھوٹی تنگ کھڑکیاں، بدنام گلیاں، رات کا اندھیرا اور چاند اپنی مدھم سی چاندنی اس بازار پر ڈال رہا تھا۔
میری ایک طرف مغل سلطنت کی آن بان اور شان و شوکت کا عَلم بردار شاہی قلعہ تھا اور دوسری طرف ایک تمسخر! ہاں جی بِالکل ایک مذاق!
جہاں یہ عظیم الشان قلعہ مغل پارسائی کی علامت تھا، وہیں مغلوں کی عیاشی کا اڈہ بھی، جہاں وہ حُسن سمیٹ کر رکھتے تھے، وہ مَنڈی بھی موجود تھی۔ بھونڈی، غریب، اَن پڑھ اور گِھسی ہوئی مگر پختہ تاریخ کی علم بردار منڈی۔
تاریخ کیسے؟ ہم اس بازار کی بات کر رہے ہیں جس کا نام تک اپنی زبان پر لانا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کے پنوں میں اسے کبھی شاہی محلہ اور کبھی بازار حسن لکھا جاتا ہے۔
تصور یہ کیا جاتا ہے کہ جو عورت یہاں جائے گی وہ بدنام ہو جائے گی، طوائف یا رقاصہ بن جائے گی اور پھر وہ سماج میں اٹھنے بیٹھنے کے لائق نہیں رہے گی۔
چمکتے چاند کی چِھنتی ہوئی روشنی اُس بند، بدنام اور بدقماش محلے کو بھی روشن کر رہی تھی۔ میں چھت پر موجود ایسے کچھ تلاش کر رہی تھی جیسے میرا کچھ سامان کھو گیا ہو۔ دور ایک بوسیدہ عمارت کی کسی کھڑکی سے نکلتی ہوئی روشنی میں موجود ہیولے پر میری مرکوز توجہ دیکھ کر میرے اُستاد بولے ’کسی کے گھر میں نہیں جھانکتے۔‘
میں چند لمحے تو خاموش رہی لیکن کیا کریں اس زبان کا ’اگر گھر کی کھڑکی کھلی ہو یا دروازہ اندر کے حالات کی چغلی کھاتا ہو تو؟‘ وہ خاموش ہو گئے۔
ہم اُس بازار کی بات کر رہے ہیں جس کا نام تک اپنی زبان پر لانا گناہ سمجھا جاتا ہے۔
میری نظریں ابھی تلاش میں ہی تھیں کہ کھانے کا بل آگیا۔ میری آنکھیں اندھیروں میں موتی ڈھونڈھ رہی تھیں، اتنے میں مجھے ایک موٹی سی عورت ایک کمرے سے نکل کر دوسرے میں جاتی ہوئی نظر آئی۔
میں سمجھ گئی یہ کوئی سابق طوائف ہے۔ دائروں میں گھومتے زینے، کھلے دالان اور چھوٹے کمرے جو اس بات کی گواہی تھے کہ کبھی ان عمارتوں کی شان دیکھنے سے تعلق رکھتی ہو گی۔ وہ عورت برآمدے سے پانی کا پائپ لے کر گزر رہی تھی۔
اس کا رنگ اور جسامت اچھے وقتوں کا عینی شاہد تھا۔ یہ سب میں ایک پرانی اونچی منڈیر سے دیکھ رہی تھی۔ نیچے کشور اور مہدی حسن صاحب کے گانے کوئی بہت ہی بے سرے انداز میں گا کر داد بٹور رہا تھا مگر میرا دماغ اس عورت کے ساتھ مسافت طے کر رہا تھا۔
میں نے جونہی سامنے دیکھا تو نظر ایک کھلے دروازے میں کھڑی ایک لڑکی پر پڑ گئی۔ اندھیرے میں دو چیزیں سلگ رہی تھیں اس کی آنکھیں اور ہاتھ میں جلتا سگریٹ۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسے مقامات پر سگریٹ ایک لازمی جزو کی طرح کیوں موجود ہوتا ہے۔ میرے استاد کہتے ہیں ’برائی سب سے خطرناک تب ہو جاتی ہے جب انسان کے اندر سے اس حقیقت کے برے ہونے کا ادراک ختم ہو جائے۔‘ سگریٹ سماج کی وہ گرد ہے جو وقت نے اڑائی ہے اور ان بدنام گلیوں کی رہنے والیاں اس گرد کو جلا کر اپنا غم مٹاتی ہیں۔
اس کی آنکھیں بے حد دلکش تھیں اور اندھیرے میں بھی ہیروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ آنکھیں جو نہ جانے کب سے کسی کے انتظار میں ہیں، کسی ایسے مسیحا کے لیے بے تاب جو شاید کبھی نہیں آئے گا۔ نِیچے سے گزرتے ہوئے لوگ دیکھ کر کبھی اس کی آنکھوں میں چمک آتی تو کبھی لوگوں کے گزرنے کے بعد اس کی آنکھیں بالکل مدھم ہو جاتیں۔ گاہک کا نہ ملنا شاید دکھ کی وجہ بنتا ہو یا جیسے کوئی پرانا غم کسی اجنبی چہرے کو دیکھتے ہوئے زخم کی طرح تازہ ہو جاتا ہو۔
یہ بازار، یہ گلیاں یہ کوچے، کیا سورج، چاند اور برسات ان گلیوں پر الگ طرح سے برستے ہیں؟
کوئی عورت نہیں چاہتی کہ مرد اس کے جسم کو کھلونا بنا کر کھیلے، چاہے وہ طوائف ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بھی جذبات ہم جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن اس معاشرے میں طوائف کا انسان ہونا بہت ہی مشکل بات ہے کیونکہ نہ ہی یہ بیمار معاشرہ اور نہ کچھ گھٹیا ذہنیت کے لوگ طوائف کو ایک جسم کے علاوہ سوچ سکتے ہیں۔
یہ بازار، یہ گلیاں یہ کوچے، کیا سورج، چاند اور برسات ان گلیوں پر الگ طرح سے برستے ہیں؟ کیا دن اور رات وہاں الگ طرح سے آتے اور جاتے ہیں؟
کیا یہاں رہنے والوں کے جذبات احساسات نہیں ہوتے؟ کیا دکھ، تکلیف اور بیماری انہیں الگ طرح سے آتی ہے؟
اسے دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ ایک بات تو ماننا ہوگی کہ مغل بہت سمجھدار تھے کیونکہ انھوں نے اس ’عیاشی‘ کو ایک ہی محلے تک محدود کر رکھا تھا۔ جنرل ضیا الحق کی دور بینی نے پوری ہیرا منڈی اٹھا کر اس دقیانوسی سماج میں پھینک دی، بجائے اس بیماری کو اٹھا کر گلے لگاتے، اس کا علاج کرتے، اسے بھیڑیوں کے حوالے کر دیا۔
سوال کسی بارش میں گرتے اولوں کی طرح میرے دماغ پر برس رہے تھے۔ کون ہیں یہ لڑکیاں؟ یہ کہاں سے آتی ہیں؟ کون سے عوامل ہیں جو ایک عورت کو یہ سب کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ کونسی ایسی مجبوریاں ہیں جو کسی عورت کو اس نہج تک لے آتی ہیں؟ میرے استاد مجھے دیکھتے رہے اور پھر بولے۔ ’ایک طوائف پوری زندگی لگا کر بھی عورت نہیں بن پاتی، مگر ایک عورت پل بھر میں طوائف بن جاتی ہے۔‘
’جن کے باپ کا نام نہ پتا ہو، لوگوں کی طرح یہ ملک بھی انھیں اپنا ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔‘
یہ بات مجھے سانپ کی طرح ڈس گئی۔ مجھے عورتوں کے ساتھ ہوتی ہر زیادتی محسوس ہونے لگی. کیسے ایک لمحے کے فریب میں عورت عزت کی لکیر پھلانگ کر طوائف بن جاتی ہے۔ کبھی محبوب کے لیے، کبھی ضرورت کے لیے، کبھی مجبوری میں تو کبھی ایڈونچر کے لیے۔
ہم اس بیمار معاشرے کے باسی ہیں جہاں آج بھی شادی کے فوراً بعد عورت کے باکردار ہونے کا ثبوت تلاشا جاتا ہے اور اس ثبوت کا نہ ہونا طلاق، ساری زندگی کے طعنے، غرض کہ اس لڑکی کی زندگی کو عمر بھر کے لیے اجیرن کرنے کے لیے کافی ہے۔
کئی ایسی لڑکیاں جو کسی جھوٹے محبوب کے دکھائے ہوئے سبزباغ کے فریب میں اندھی ہو کر گھر سے بھاگ کھڑی ہوتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں جب شادی کے کچھ ہفتوں بعد ٹُھکرا دی جاتی ہیں تو واپسی کا راستہ بند ہوتا ہے۔ واپسی کا مطلب غیرت کے نام پر قتل کر دیا جانا ہے اور ان کی آخری جائے پناہ یہی بازار ہے اور بِکنا ان کی مجبوری۔
اس بازار میں پھرنے والے لوگوں کی نظریں ان کھڑکیوں میں کھڑی لڑکیوں کو انسان نہیں کسی بکاؤ مال کی طرح للچائی ہوئی اور حقارت بھری نظروں سے دیکھتی ہیں۔ حالانکہ اس مال کی خریداری کے لیے ہی وہ خود یہاں موجود ہیں۔ اگر وہ لڑکیاں حقیر ہیں توان کے خریدار بھی ان ہی جیسے ہیں۔
ہوٹل کی بلند و بالا منڈیر سے نیچے اُترکر گاڑی کی سمت جاتے ہوئے میری نظر ایک پُتلی تماشے کے ایک چھوٹے سٹال لگائے ایک بوڑھی عورت پر پڑی۔ نہ جانے کیوں میرے ذہن نے الارم بجایا کہ شاید میرے کچھ سوالات کے جواب مجھے مل جائیں گے۔
اماں آپ یہاں کب سے رہتی ہیں؟ بیٹا میں پیدا ہی یہاں ہوئی تھی. یہاں کے لوگوں کے کچھ مسائل تو بتائیں۔ ’بیٹا جن کی شناخت ہی نہ ہو وہ تو اس ملک میں رہتے ہوئے بھی ایک ڈر کے ساتھ جی رہے ہیں۔ نہ تو ہم کسی ہسپتال میں جا کر علاج کروا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی غریب، نادار لوگوں کے لیے موجود کسی سہولت یا سکیم کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‘
وہ کیوں اماں؟ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر درد سے بھری نظرسے میری طرف دیکھ کر بولیں، ’جن کے باپ کا نام نہ پتا ہو، لوگوں کی طرح یہ ملک بھی انھیں اپنا ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔‘
(بشکریہ اردو نیوز)
Comments are closed.