جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے،آرمی چیف

48 / 100

فائل:فوٹو
راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ اگر ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو عراق، شام اور لیبیا سے پوچھو۔ علما و مشائخ سے التماس ہے کہ وہ شدت پسندی یا تفریق کے بجائے تحمل اور اتحاد کی ترغیب دیں علما اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔

وفاقی دارالحکومت میں نیشنل علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم فساد فی الارض ہے۔ پاک فوج اللہ کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے،آرمی چیف کا بیان۔

آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان نے 40 سال سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغانوں کی مہمان نوازی کی ہے۔ ہم انھیں سمجھا رہے ہیں کہ فتنہ خوارج کی خاطر اپنے ہمسایہ، برادر اسلامی ملک اور دیرینہ دوست سے مخالفت نہ کریں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے پختون بھائیوں اور خیبر پختونخوا کے عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور ہم ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

خوارج ایک بہت بڑا فتنہ ہیں،جن کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا

اللہ سے کرے دْور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

آرمی چیف نے کہا کہ ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن پر امن رہیں۔ شدت پسندی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ جرائم اور اسمگلرز مافیا دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلایا جاتاہے۔ ناموس رسالت پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ کسی کی ہمت نہیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر سکے۔

جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ کسی نے پاکستان میں انتشار کی کوشش کی تو رب کریم کی قسم، ہم اس کے آگے کھڑے ہوں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی کیوں کہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ اس پاکستان پر لاکھوں عاصم منیر، لاکھوں سیاستدان اور لاکھوں علما قربان کیونکہ پاکستان ہم سے زیادہ اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو عراق، شام اور لیبیا سے پوچھو۔ علما و مشائخ سے التماس ہے کہ وہ شدت پسندی یا تفریق کے بجائے تحمل اور اتحاد کی ترغیب دیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔ مغربی تہذیب اور رہن سہن ہمارا آئیڈیل نہیں ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب پر فخر ہونا چاہیے۔

آرمی چیف نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا کہ:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ جو یہ کہتے تھے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، وہ آج کہاں ہیں؟۔ کشمیر تقسیم پاک وہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ فلسطین اور غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فلسطین سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے اور پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔

Comments are closed.