سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی معافی قبول کرلی، توہین عدالت کے نوٹسز واپس
فوٹو فائل
اسلام آباد: توہین عدالت ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس میں جاری کیے گئے شوکاز نوٹس واپس لے لیے جبکہ ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ عدالت نے ٹی وی مالکان اور چینلز کے چیف ایگزیکٹو کے مشترکہ دستخط سے تحریری جوابات طلب کر لیے جبکہ عدالت نے حکم دیا کہ ٹی وی چینلز نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنسز نشر کرکے کتنا ریونیو کمایا، تفصیل پیش کی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سینیٹر فیصل واوڈا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بھی معافی مانگی ہے؟ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ جی میں نے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرا دیا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگی اور اب پریس کانفرنس میں بھی ندامت کا اظہار کر چکے ہیں۔
ٹی وی چینلز کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کلائنٹس کہاں ہیں؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 26 چینلز کی جانب سے میں ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کسی کلائنٹ نے ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کروایا۔
وکیل مصطفیٰ کمال نے کہا کہ میرے موکل نے پریس کانفرنس کرکے معافی مانگی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا کی جانب سے معافی جمع کروائی گئی ہے؟ فیصل واوڈا نے کہا کہ جی میری جانب سے بھی معافی کے لیے جواب جمع کروایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو مذہبی اسکالرز سے مشورہ کرنے کا بھی لکھا ہے۔
میڈیا چینلز کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ کس طرح میڈیا اداروں کی جانب سے پیش ہو سکتے ہیں؟ کسی ایک میڈیا کی جانب سے بھی تحریری جواب جمع نہیں کروایا گیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسز نہیں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کروانا چاہتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کم از کم میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ تمام چینلز کے نمائندگان عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا، جس پر وکیل نے کہا کہ تحریری جواب جمع کروا چکا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں چینلز کے نہیں، توہین عدالت کیس میں دستخط چینلز کے ہونا لازمی ہیں۔ فیصل صدیق نے بتایا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے کیا یہ درست ہے؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ فریڈم آف پریس کی وضاحت دو سو سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 200 سال سے کیوں، 1400 سال سے کیوں شروع نہیں کرتے، آپ کو 1400 سال پسند نہیں؟ 200 سال کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں 200 سال کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے آئین کا، اس میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟ آُ نے بطور ٹی وی چینلز ان کی گفتگو پھیلائی، آپ ان پر توہین کی تہمت اب لگا رہے ہیں اور خود کہتے ہیں کچھ نہیں کیا، باہر کے ممالک میں تو پریس کانفرنس لائیو نہیں دکھائی جاتی، وہاں پریس کانفرنس سن لی جاتی ہے پھر کچھ چیزیں کاٹ لیتے ہیں، اب آپ امریکا کی مثال نہیں دیں گے، آپ نے خود مان لیا توہین ہوئی ہے پھر آپ کو نوٹس کر دیتے ہیں، یہ تو اب آپ کے اعتراف پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے آپ پر پورا اعتبار ہے آپ جو بھی فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں سرٹیفکیٹ نہ دیں، کیا یہ آئینی دلیل ہے کہ آپ پر پورا اعتبار ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ چینلز کے دستخط سے جواب دیں تو دے دوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمارے ساتھ گیمز کھیلیں گے تو آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہم بھی پھر آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔ فیصل صدیقی اس جواب پر آپ کے دستخط ہیں، ہم آپ کو بھی توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس جواب کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود کہا کہ کم از کم ایک پریس کانفرنس تو توہین آمیز تھی، فیصل صدیقی نے بتایا کہ میں نے بادی النظر میں توہین کہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا ایسا مت کریں، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں نے کہا تھا بادی النظر میں توہین ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جواب میں لکھا ہے آپ پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں سے متفق نہیں، پریس کانفرنس نشر کرتے وقت آپ نے ساتھ یہ لکھا تھا؟ آپ وہ بات جواب میں کیوں لکھ رہے ہیں جو کی نہیں، پریس کانفرنس کرنے والے دونوں نے آکر کم از کم کہا غلطی ہوئی، ہم بھی اپنی غلطی مانتے ہیں لیکن آپ نہیں مانتے، آپ نے جواب میں کہا آپ کی ڈیوٹی ہے پریس کانفرنس کوور کرنا، پاگل خانے میں کوئی پاگل پریس کانفرنس کرے وہ کوور کرنا آپ کی ڈیوٹی ہے؟ پریس کانفرنس کرنے والے کہہ رہے ہیں ان سے غلطی ہوگئی، آپ مگر کہہ رہے ہیں کہ آپ کا فرض ہے یہ دکھائیں گے۔
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ کوئی بھی شخص آکر کہہ دے میں عوام کا نمائندہ ہوں آپ اسے نشر کریں گے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ کہاں سے کر رہے ہیں؟ پیمرا سے یا کسی بین الاقوامی کنونشن سے دکھائیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ حقائق اور سچ میں فرق ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ میں آج آپ سے نئی بات سیکھوں گا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں کہاں آپ کو کچھ بھی سکھا سکتا ہوں، سچ کا تناظر وسیع ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ ہمارے سامنے کھڑے ہیں یہ حقیقت ہے یا سچ؟ بال کی کھال اتارنے جیسی بات کر رہے ہیں، صدیقی صاحب وکیل نے اپنے کلائنٹ کا مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں چینلز کے دستخط والا جواب جمع کروا دوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑے احسان والی بات ہو گی نا، ہم آپ کو موقع نہیں دیں گے، ہمیں نہ بتائیں ہم نے کیا کرنا ہے، آپ تماشہ نہیں کریں گے تو پیسے کیسے بنیں گے، سچ بولنے سے تو پیسے نہیں بنیں گے، گالی گلوچ آج کل عام بات ہو گئی ہے، بچپن میں ہم ایسی باتیں نہیں سنتے تھے، ایسی باتیں گلیوں میں ہوتی تھیں اب ایسی باتیں ٹی وی پر ہوتی ہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ ٹی وی چینلز پر ایسے لوگوں کو بلاتے ہیں جن کو قانون کا کچھ نہیں علم ہوتا، میڈیسن کی بات ہوتو میڈیکل کا بندہ ہی بات کرتا اچھے لگے گا اور قانون کی بات پر قانون دان۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کی تجاویز بہت اچھی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کوئی تجاویز نہیں دیں، ہم قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ہو سکتا ہے مقصد پیسوں سے بھی بڑا ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ان لوگوں کو پتہ نہیں غیبت کیا ہے، یہ اتنے ماشاء اللہ پڑھے لکھے لوگ ہیں، یہ امریکا کی بات دو دو سال پرانی کرتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کی نہیں، کیا کوئی اس سے گھناؤنی چیز ہوسکتی ہے، یہ تو غیبت سے پیسے بھی کما رہے ہیں، تمام قرآنی آیات اور احادیث کی کاپیاں ان کو بھی فراہم کریں، پتہ نہی ہمیں کیوں دلچسپی نہیں رہی اپنے دین سے۔ یورپی ممالک میں سب بہت محتاط ہوتے ہیں، یہ ہمیں توہین کے ساتھ ساتھ ہتک عزت میں بھی لے جانا چاہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جو آدمی معافی مانگے کیا اسے بخشنا چاہیے، ہمیں توہین عدالت کارروائی کا شوق نہیں ہے لیکن معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ جب پیمرا نے کچھ کرنا ہوتا ہے تو کورٹ رپورٹنگ پر بھی پابندی لگا دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جج کی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں، صحافیوں کے خلاف تشدد کو روکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ مخالف کچھ اور پریس کانفرنسز بھی کی گئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کس نے پریس کانفرنسز کیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے رؤف حسن نے آپ کے بارے میں اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پریس کانفرنس میں کیا کہا گیا، رؤف حسن کیا فواد حسن فواد کے بھائی ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی رؤف حسن فواد حسن فواد کے بھائی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فواد حسن فواد کے خلاف تو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ تمام ادائیگی جیب سے کریں، ہم نے فواد حسن فواد کے خلاف فیصلہ ختم کیا، شاید ہمارا یہ فیصلہ رؤف حسن صاحب کو پسند نہ آیا ہو، میں اپنے بارے میں کی گئی باتوں پر توہین عدالت کی کارروائی چلانے کے حق میں نہیں ہوں، میرے بارے میں ایک مرتبہ کہا گیا مجھے چوک میں گولی مار دی جائے، اس دھمکی پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی، میری اہلیہ نے ضرور تھانے میں درخواست دی تھی، موجودہ کیس ایک ساتھی جج نے کہا تو شروع کیا، کچھ اور لوگوں کا نام آتا ہے تو میڈیا بیپ لگا دیتا ہے۔
پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی کو اپنے موکل سے ہدایت لینے کا حکم دیا گیا۔
مختصر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس ختم کر رہے ہیں، ہم پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں، آپ سے بھی امید ہے عدلیہ کی بطور ادارہ عزت کریں گے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں آئندہ ایسا نہیں ہوگا، ایک جج نے مجھے پراکسی کہا مجھے بہت کرب سے گزرنا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پہلی بات نہ کہتے شاید دوسری بات نہ کی جاتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپکا مؤقف اصولی ہے تو عدالت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں، فریڈم آف پریس کا اگر کیس ہے تو دباؤ میں نا آئیں کھڑے رہیں، جب کیس آگے بڑھے گا تو پھر آپ اپنے دلائل میں امریکا اور دیگر ممالک کی مثالیں دیتے رہیے گا۔ چیف جسٹس نے ٹی وی چینلز کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے نہ معذرت کی نا ہی علامتی طور پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا۔
عدالتی حکمنامے کہا گیا کہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے 34 ٹی وی چینلز میں سے 26 کی نمائندگی کی، عدالت میں جو ابتدائی جواب جمع کروایا گیا اس میں کسی ٹی وی چینلز کے نمائندوں کے دستخط کے بجائے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے خود دستخط کیے۔ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ براڈکاسٹر کی ذمہ داری ہے وہ پبلک انٹرسٹ کے تحت آرٹیکل 19-اے کی بنیاد پر پریس کانفرنس کی براہ راست نشریات دکھائے۔
حکمنامے کے مطابق ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا دو میں سے ایک پریس کانفرنس توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے، ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کسی دوسرے کی کہی ہوئی بات کا براڈکاسٹر ذمہ دار نہیں ہو سکتا، ہم نے تحریری جواب کا جائزہ لیا، بادی النظر میں جمع کروایا گیا جواب قابل وضاحت نہیں ہے۔
کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.