چینی بحران، رپورٹ جہانگیر ترین اور حکومتی رہنماوں کے خلاف آ گئی

فوٹو : فائل

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)چینی آٹا بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی، فائدہ اٹھانے والوں میں جہانگیر ترین سب سے آگے مونس الٰہی اور خسرو بختیار کے بھائی و دیگر سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں۔

فروری میں پیدا ہونے والے چینی اور آٹا بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کو تحقیقات سونپی گئی تھی،منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے والوں میں حکومتی رہنما شامل ہیں.

تحقیقاتی رپورٹ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی کو آٹے کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہےرپورٹ کے مطابق ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنماء جہانگیر ترین نے اٹھایا.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیاء کی تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کا فائدہ اٹھایا، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے رشتہ دار نے آٹے اور چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔

ذرائع کے مطابق چینی بحران پر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ 32 صفحات پر مشتمل ہے، رپورٹ منظر عام پر لانے سے قبل وزیراعظم عمران خان نے اس کا خود جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مونس الٰہی اور چوہدری منیر رحیمیار خان ملز، اتحاد ملز، ٹو اسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں، مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر لک کی ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ پہنچا۔

خسرو بختیار، عمران خان ،جہانگیر ترین (فائل فوٹو)

رپورٹ کے مطابق بحران سے چینی کی برآمد سے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا، چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا، چینی برآمد کرنے والوں نے دو طرح سے پیسے بنائے، سبسڈی کی مد میں رقم بھی وصول کی اور قیمت بڑھنے کا بھی فائدہ اٹھایا.

شوگر ایڈوائزری بورڈ وقت پر فیصلے کرنے میں ناکام رہا، دسمبر 2018ء سے جون 2019ء تک چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا حالانکہ اس عرصہ میں کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا گیا تھا۔

چینی کا موجودہ اسٹاک اور ضرورت تقریباً برابر ہے، تھوڑا سا فرق ذخیرہ اندوزوں کو قیمتیں بڑھانے کا موقع فراہم کرے گا، حکومت اس معمولی فرق کو بھی ختم کرنے کیلئے چینی درآمد کرنے کی اجازت دے۔

وزیر اعظم کو پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم بحران کی بڑی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی منصوبہ بندی نہ ہونا ہے، محکمہ خوراک پنجاب نے 20 سے 22 دن تاخیر سے گندم جمع کرنا شروع کی.

رپورٹ کے مطابق پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ فلور ملز کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوا، محکمہ خوراک پنجاب طلب اور رسد کیلئے طریقۂ کار بنانے میں بھی ناکام رہا۔

رپورٹ میں پنجاب میں گندم کا ہدف پورا نہ کرنے کی ذمہ داری سابق سیکریٹری خوراک نسیم صادق، سابق ڈائریکٹر خوراک پنجاب ظفر اقبال پر عائد کی اور وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری کو بروقت اقدامات نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ دار صوبائی کابینہ ہے، جس نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا.

خیبرپختونخوا میں گندم خریداری ہدف پورے نہ کرنے کے ذمہ دار وزیر قلندر لودھی ہیں، سیکریٹری خوراک کے پی اکبر خان اور ڈائریکٹر خوراک سادات حسین بھی ذمہ دار قرار دیئے گئے ہیں۔

دریں اثناء مونس الٰہی نے تحقیقاتی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ان کا رحیم خار شوگر مل کی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ، صرف بالواسطہ شیئرز ہیں، اس شوگر مل کا قومی برآمدات میں 3.14 فیصد حصہ ہے۔

یاد رہے وزیراعظم عمران خان نے آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی اور بحران کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی.

نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق اس حوالے سے  تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ 3 ارب روپے میں سے ڈھائی ارب کی سبسڈی ن لیگ کے دور میں دی گئی۔

جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ جس وقت ن لیگ نے ڈھائی ارب کی سبسڈی دی اس وقت میں اپوزیشن میں تھا، میری کمپنیوں نے 12.28 فیصد چینی ایکسپورٹ کی، ایکسپورٹ پہلے آئیں، پہلے پائیں کی بنیاد پر کی گئیں۔

رپورٹ پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے چینی سے متعلق فیصلوں اور ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کے پیش نظر ہمیشہ اجلاس میں شرکت سے گریز کیا

Comments are closed.