نوازشریف کومزید30 دن کی مہلت مل گئی

ویب ڈیسک

اسلام آباد : اسلام آبادہائی کورٹ نے نواز شریف کو اشتہارجاری کرنے کا حکم دیا ہے لیکن عملاً سابق وزیراعظم کو مزید 30 دن کا وقت مل گیا ہے،29 دن بعد نواز شریف کو موت القریب ثابت کرنے والی ان کی قانونی ٹیم نیا جواز اور نیا راستہ تلاش کر سکتی ہے.

نوازشریف تب اشتہاری قرار پائیں گے جب وہ
30 دن کے اندر عدالت پیش نہ ہوئے،سابق وزیراعظم ایک سال سے پہلے ہی علاج کی غرض سے اس ملک میں بیٹھے ہیں جہاں پاکستان کی نسبت کورونا وائرس اور ہلاکتیں کئی گنا زیادہ ہیں.

سابق وزیراعظم منی لانڈرنگ کےجرم میں سزا یافتہ ہیں جو سزا اعلٰی عدلیہ ختم بھی کر سکتی ہے ماضی میں مثالیں موجود بھی ہیں اور پورا ملک بےخبر رہا اور کیسز راتوں رات ختم ہوتے بھی رہے ہیں.

اہم شخصیات کی عدالتوں میں پیشیاں بھی ملکی خزانہ پر بوجھ ہوتی ہیں کیونکہ سکیورٹی اور دیگر لوازمات ریاست کے ذمہ ہوتے ہیں اس دوران سکیورٹی اور سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے متعلقہ اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں.

عدالتی حکم کے مطابق اشتہار کے پیسے بھی حکومت ادا کرے گی، اشتہار کو آویزاں بھی کرنے کیلئے اخراجات ہوں گے کیونکہ یہ اشتہار رائے ونڈ کے ساتھ ساتھ لندن میں میاں نواز شریف کی رہاہش کے باہر بھی چسپاں ہوگا.

عدالتی کارروائی!

اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ اور ایون فیلڈریفرنسز میں نواز شریف اور نیب کی اپیلوں کی سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔

نواز شریف کے وکیل اور وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھرعدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت پہلے گواہ ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری قونصلر اتاشی دلدار ابڑو ویڈیولنک کے زریعے پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلدار علی سے مکالمے میں کہا عدالت کوبیان ریکارڈکرائیں، کیا آپ کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ آپ عدالت کو ڈاکیو منٹس کے ٹریکنگ نمبر بتائیں، دلدار ابڑو نے رائل میل کی رسید ویڈیو لنک پر دکھائی ۔

سردار مظفر نے سوال کیا کیا یعقوب خان نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کیا تھا؟ جس پر پاکستانی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری دلدار علی ابڑو نے بتایا کہ نوازشریف کے بیٹے کے ملازم یعقوب خان نے عدالتی احکامات وصولی سے انکار کیا۔

دوسرے گواہ لندن ہائی کمیشن کے قونصلراتاشی راؤعبدالحنان بھی بیان ریکارڈ کرانے ویڈیو لنک کے زریعے پیش ہوئے ، نیب پراسیکوٹر نے سوال کیا آپ نے عدالتی احکامات کی کاپی کب اصول کی ؟ راؤ عبدالحنان نے بتایا کہ 17 ستمبر کو مجھے عدالتی احکامات کی کاپی ملی اسی دن عدالتی احکامات کو پارک لین اپارٹمنٹ میں پہنچایا۔

نیب پراسیکیوٹر نے سوال کی عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنے گئے تو وہاں کیاہوا؟ جس پر راؤ عبدالحنان نے بتایا کہ عدالتی احکامات مسٹر اے ڈی کو دے دیے تھے، میں نے مسٹر اے ڈی کو کہا آفیشل کاغذات دینے ہیں، مسٹر اے ڈی نے مسٹر یعقوب کو کال کرکے مجھے ملنے کا کہا ، مسٹر یعقوب سے ملاقات پر تعارف کرایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن سے آیا ہوں۔

راؤعبد الحنان کا کہنا تھا کہ یعقوب نے مجھے پوچھا کہ کس چیز کے دستاویزات ہیں؟ میں نے ان کو بتایا مجھے علم نہیں ، لفافے میں سرکاری دستاویزات ہیں، جس پر مسٹر یعقوب نے مجھے کہا کہ کاغذات لینے کی اجازت نہیں، اس کے بعد ہم نے 28 ستمبر کو ایک اور بار کاغذات دینے کی کوشش کی، مجھے پاکستانی ہائی کمیشن سے کہا گیا عدالتی احکامات خود جا کر جمع کرائیں، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں مسٹر اے ڈی نے دوبارہ دستاویزات لینے سے انکار کیا۔

اس موقع پر جسٹس محسن اخترکیانی نے استفسار کیا وہ کاغذات اس وقت کہاں ہیں؟ کیا کاغذات تھے کیا آپ نے کھول کر دیکھا ، تو راؤ عبدالحنان نے جواب دیا کہ وہ کاغذات اس وقت میرے پاس ہی ہیں، جی عدالتی احکامات کے دستاویزات میں نے کھول کردیکھے۔

جسٹس محسن نے پھر سوال کیا کیا آپ نےرائل میل کے ذریعے وہ دستاویزات بھیجے تھے؟ راؤعبدالحنان نے بتایا نہیں وہ دستاویزات میں خود لیکر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس گیا تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پوچھا مسٹر اے ڈی کے پاس آپ کتنے بار گئے تھے؟ جس پر راؤعبد الحنان کا کہنا تھا کہ میں مسٹر اے ڈی سے دو چار بارمل چکا ہوں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا آپ یعقوب نامی شخص کو جانتے ہیں؟ قونصلراتاشی نے بتایا کہ نہیں میں یعقوب نامی شخص کو نہیں جانتا، نواز شریف کے گھر پہنچ کر یعقوب سے بات کی۔

نوازشریف اور نیب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران وزارت خارجہ کے افسر مبشر خان کا بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے حلف لیا گیا، مبشر خان نے بتایا 22 ستمبر کو میں اسی عدالت میں پیش ہوا ، مجھے پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں وارنٹس بھیجنے کا حکم ملا ، 17 ستمبر کو ناقابل سماعت وارنٹ کے عدالتی احکامات وزارت خارجہ کو ملے،جو کہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن کوارسال کیے۔

نمائندہ وزارت خارجہ مبشر خان کا کہنا تھا کہ 28 ستمبر کو پاکستانی ہائی کمیشن سے اصل رسید مجھے مل گئی ، مجھے رسیدیں ڈپلومیٹک بیگ میں ملیں،عدالت

نے استفسار کیا ڈپلومیٹک بیگ میں ہے کیا ؟ جس پر مبشر خان نے بتایا کہ بیگ میں دلدارعلی ابڑو اور راؤ عبدالحنان کا بیان دستاویزات کی شکل میں ملے، دو مصدقہ کاپیاں رائل میل کی بھی ان دستاویزات کے ساتھ تھیں، عدالتی احکامات کے مطابق اصل دستاویزات عدالت کو جمع کرائے گئے۔

جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا آپ دستاویزات کب تک عدالت منگواسکتےہیں؟ مبشر خان نے کہا وزارت خارجہ سے دو تین گھنٹوں میں دستاویزات منگوا لوں گا، جس پر عدالت نے کہا وزارت خارجہ کا دفتر لندن میں نہیں، دستاویزات جلدی منگوا لیں جو
بعد میں عدالت میں پیش کی گئیں۔

جسٹس عامرفاروق نے کہا رجسٹر میں کیا لکھا ہوا ہے، ڈائری نمبر عدالت کوبتائیں، نمائندہ دفترخارجہ مبشر خان نے بتایا نوازشریف کی کرمنل اپیل121،کرمنل اپیل نمبر1درج ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے2 وارنٹ آف اریسٹ وزارت خارجہ کوبھجوا ئے، 17 ستمبر کو عدالتی احکامات کو پاکستانی ہائی کمیشن لندن بھیجا گیا۔

جسٹس عامرفاروق نے وزارت خارجہ کے افسر سے استفسار کیا کیا ڈائری ٹائٹل کیالکھا ہے؟ مبشرخان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کےناقابل سماعت وارنٹ گرفتاری سے ہی ڈائری ٹائٹل ہے، عدالتی احکامات پر عملدرآمدکےڈائری ٹائٹل اور نمبر سے عدالت کو آگاہ کیا گیا، ریکارڈ کوڈپلومیٹک بیگ کےذریعے ہی عدالت میں جمع کرایا گیا۔

وزارت خارجہ کے یورپ ڈویژن سے متعلق رجسٹر بھی عدالت میں پیش ہوئے ، مبشر خان نے عدالت کو بتایا کہ ڈپلومیٹک بیگ میں مصدقہ دستاویزات پاکستانی ہائی کمیشن لندن کوبھجوائےگئے، فیکس کے ذریعے بھجوائے گئے دستاویزات کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا ، 17 ستمبر کو عدالتی احکامات کے دستاویزات بھیجےگئےتھے۔

پاکستانی ہائی کمیشن لندن کےدستاویزات وصولی کے شواہد بھی عدالت میں پیش کئے گئے جبکہ کمپیوٹر ریکارڈ فیکس کےدستاویزات بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دیے گئے، جسٹس عامر فاروق نے کہا دستاویزات کےساتھ مستند کاپی بھی عدالت میں جمع کرائیں۔

عدالت نے جہانزیب بھروانہ کو روسٹرم پر بلا لیا، جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ عدالت نواز شریف کو اشتہاری قرار دے، تین افسران کا بیان ریکارڈ کیا گیا، دستاویزات عدالت کو جمع کرائے گے، اگرعدالت شواہد سے مطمئن ہے تو ملزم کواشتہاری قرار دیا جائے، جس پر جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ کیس میں بیان اوردستاویزات عدالتی ریکارڈ پر آگئے، عدالت کو مطمئن کریں کہ شواہد اور بیان کی بعد کیا کیاجائے۔

جہانزیب بھروانہ نے مزید کہا کہ تمام دستاویزات اور بیان کےبعد اشتہاری قرار دینا ہی بنتا ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اشتہاری قرار دینے کے لیے اخبار میں اشتہاردیاجائےگا، اخباری اشتہار کے زریعے ملزم کو آگاہ کرنا ہوتا ہے، اگر نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیتے ہیں تو عمل کون کرائے گا۔

نیب پراسیکوٹر نے بتایا عملدرآمد وفاق کرائے گا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا اشتہاری قرار دینے کیلئے اخبار کونسا ہوگا، تو جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ اشتہاری کی کارروائی کیلئے طریقہ کار دیا گیا ہے۔

اسلام آبادہائیکورٹ نےنوازشریف کےاشتہارجاری کرنے کا حکم دے دیا اور کہا وفاقی حکومت 2 دن کے اندر اخباری اشتہار کے اخراجات عدالت کو جمع کرائے، اشتہار چھپنے کے 30 دنوں میں اگر ملزم پیش نہیں ہوا تو اشتہاری قرار دیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا اخبارمیں چھپنے کے بعد اشتہار کو مختلف مقامات پر چسپاں کیا جائے گا اور اشتہار اسلام آبادہائی کورٹ، نوازشریف کی لاہور اور لندن رہائشگاہ کے باہر چسپاں کیا جائے گا،اب اشتہار جاری ہونے کے 30 دن بعد دوبارہ سماعت ہوگی۔

Comments are closed.