مغرب میں مسلہ کشمیر نہ اٹھانا منافقت ہے، عمران خان


اسلام آباد(ویب ڈیسک )وزیراعظم عمران خان نے کہاہے ہم امن چاہتے ہیں محاذ آرائی نہیں چاہتے، ہم اب کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کا حصہ بننا نہیں چاہتے، امریکا کو انخلا سے قبل افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہو گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں، سیاسی حل کے بغیر افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے، سیاسی حل یہ ہوسکتا ہے کہ ایک اتحادی حکومت تشکیل دی جائے جس میں طالبان اور دوسرے فریق شامل ہوں۔

وزیراعظم نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں ایک بار پھر یہ دو ٹوک مؤقف دہرایا کہ سرحد پار انسداد دہشت گردی مشن کے لیے پاکستان سی آئی اے کو ہوائی اڈے نہیں دے گا ، انھوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان جنگ میں پہلے ہی بہت نقصان اٹھا یاہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ جو بھی افغان عوام کی نمائندگی کرتا ہے ہم اس سے رابطہ رکھیں گے، طالبان نے افغان جنگ میں فیصلہ کن فتح کی مہم شروع کی تو بڑے پیمانے پر خون ریزی ہوگی جس کے نتیجے میں پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

جب 20سال فائد ہ نہیں ہوا تو امریکہ اب کیوں بمباری کرے گا؟

وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغانستان میں کارروائیوں کے لیے امریکی ایئر فورس کو اپنی فضائی حدود بھی استعمال نہیں کرنے دیں گے ، آخر جب 20 سال تک کوئی فائدہ نہ ہوا تو اب امریکا کیوں افغانستان پر بمباری کرے گا، اس کا اب کیا فائدہ ہوگا؟

عمران خان نے کہا امریکا افغان جنگ میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، پاکستان نے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ قربانیاں دیں، پاکستان میں ا ب بھی 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برصغیر میں 1.4 ارب کی آبادی ہے جو کشمیر کے تنازع کی وجہ سے یرغمال بنی ہوئی ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہاں استصواب رائے ہونا چاہیے، اگر امریکا چاہے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، چین نے ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لیے بھی ریسکیو کیا، انھوں نے کہا کہ دنیا بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیریوں کو کیو ں نظر انداز کررہی ہے؟

عمران خان نے کہاکہ 8 لاکھ بھارتی فوجیوں نے کشمیر کو کھلی جیل بنا رکھا ہے، مغرب میں کشمیر کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا، میرے خیال سے یہ منافقت ہے۔

وزیراعظم نے بتایا کہ میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہوں، مجھے پاکستان اور بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونے پر خوشی ہوگی، کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو ان ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہوں لیکن پاکستان کا جوہری پروگرام صرف ملک کے دفاع کے لیے ہے، نائن الیون کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔

چین میں ایغور مسلمانوں پر مظالم سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چینی حکومت کے مطابق ایسا نہیں ہے اور ہم چین کے موقف کو بھی دیکھتے ہیں۔

ریپ کو فحاشی سے منسلک کا بیان مجھ سے منسوب کرنا بکواس ہے

وزیراعظم نے ان کے ریپ کو فحاشی کے ساتھ منسلک کرنے کے بیان کے بارے میں سوال پر کہا کہ ‘یہ سراسر بکواس ہے میں نے ایسا نہیں کہا، میں نے تو پردے کے تصور پر بات کی تھی پردے کا تصور یہ ہے کہ معاشرے میں فتنے سے گریز کیا جائے۔

جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ‘اگر خواتین بہت مختصر لباس پہنیں گی اس کا مردوں پر اثر ہوگا تاوقتیکہ وہ روبوٹ ہوں، میرا مطلب عمومی سمجھ کی بات ہے کہ اگر آپ کا معاشرہ ایسا ہو کہ جہاں لوگوں نے ایسی چیزیں نہ دیکھی ہوں تو اس کا ان پر اثر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ڈسکوز اور نائٹ کلب نہیں ہیں، لہذا اگر معاشرے میں بے راہ روی بہت بڑھ جائے گی اور نوجوانوں کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کی کوئی جگہ نہ ہو، تو اس کے معاشرے کے لیے مضمرات ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ اگر عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو لامحالہ اس سے مرد پر اثر پڑے گا ، جہاں تک جنسی تشدد ہے اس کا تعلق معاشرے سے ہے، جس معاشرے میں لوگ ایسی چیزیں نہیں دیکھتے وہاں اس سے اثر پڑے گا لیکن امریکا جیسے معاشرے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

عمران خان نے زمانہ کرکٹ میں اپنی پلے پوائے جیسی زندگی سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ میری ذات کی نہیں بلکہ میرے معاشرے کی بات ہے، میری ترجیح یہ ہے کہ میرا معاشرہ کیسے برتاؤ کرتا ہے اور کیا ردعمل آتے ہیں، جنسی جرائم بڑھتے ہیں تو ہم بیٹھ کر اس مسئلے کا حل سوچتے ہیں۔

 ایچ بی او پر ایکسیئز پروگرام میں صحافی جوناتھن سوان کو ایک انٹرویو میں وزیراعظم کو مختلف معاملات میں الجھانے کی کوشش کی گئی تاہم عمران خان نے ہر حوالے سے دو ٹوک موقف اپنایا اور واضح کیا کہ ہمیں اپنے مفادات کاتحفظ کرناہے دوسروں کا نہیں۔


جاری ہے

اسلاموفوبیاں پر اسلامی ممالک کو رابطوں کے فقدان پر خط لکھا

عمران خان نے کہا کہ میں دنیا میں دیکھتا ہوں کہ فلسطین، لیبیا، صومالیہ، شام اور افغانستان میں کیا ہورہا ہے تو کیا میں ہر چیز کے بارے میں بات کرنا شروع کردوں؟ میں اپنی سرحد پر اور اپنے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر توجہ رکھتا ہوں۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ وہ ان چیزوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جن سے ملک اور اس کی سرحدوں کا تعلق ہے، ایک لاکھ کشمیریوں کا مرنا میرے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے کیوں کہ آدھا کشمیر پاکستان میں ہے۔

مسلم ریاستوں کے رہنماؤں کو اسلاموفوبیا کے خلاف متحد ہونے کے لیے لکھے گئے خط کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ اسلامی دنیا اور مغربی معاشروں کے درمیان رابطوں کا بڑا فقدان ہے، یہ 9/11 کے بعد ہوا جب ‘اسلامی’ دہشت گردی کا لفظ استعمال میں آیا۔

ہاں! امریکی سی آئی اے کے سربراہ سے ملاقات کرنے سے انکار کیا

عمران خان نے کہا کہ جس لمحے آپ اسلامی دہشت گردی کہتے ہیں، مغرب کا عام آدمی سمجھتا ہے کہ ایسا کچھ مذہب میں ہے جو دہشت گردی کا باعث بنتا ہے، نائن الیون کے بعد ایسی سوچ سامنے آئی ہے۔

وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر ‘خوش’ ہیں؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ایک طریقے سے خوش ہوں کیوں کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں نکلنا تھا، لیکن تشویش کے احساسات بھی ہیں کیوں کہ ایک سیاسی تصفیے کے بغیر خانہ جنگی کا امکان ہے۔

عمران خان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکا نے انخلا کی تاریخ کا اعلان کر کے غلطی کی؟ تو وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو بڑے بکھیڑے میں ڈال دیا ہے، انہیں کوئی ٹائم فریم دینا تھا لیکن جب انہوں نے ایک ٹائم فریم دیا طالبان نے اسے فتح سمجھا۔

سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم برنز کے حالیہ دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 9/11 کے بعد سے دونوں ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیز ‘مسلسل رابطے’ میں ہیں تاہم یہ بھی کہا کہ انہوں نے سی آئی اے سربراہ سے ملاقات سے انکار کیا ہے۔

جو بائیڈن کے پاس جب وقت ہو وہ مجھ سے بات کرسکتے ہیں

یہ سوال بھی کیا گیا،کیا آپ امریکی حکومت کو پاکستان میں سی آئی اے رکھنے کی اجازت دیں گے تا کہ وہ القاعدہ، داعش یا طالبان کے خلاف سرحد پار انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کرسکے؟

جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ‘ہرگز نہیں، کسی بھی صورت ہم اپنے اڈوں کے استعمال کی اور نہ ہی پاکستانی حدود سے افغانستان میں کسی بھی طرح کی کارروائی کی اجازت دیں گے،انہوں نے کہا کہپاکستان نے 70 ہزار لاشیں برداشت کی ہیں۔

ہم اپنی سرزمین سے مزید عسکری کارروائیوں کے متحمل نہیں ہیں، ہم تنازع میں نہیں امن میں حصہ دار بنیں گے،فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے پر بھی عمران خان نے واضح کیاکہ پاکستان اب کسی تنازعے کاحصہ نہیں بنے گا۔

امریکی صدر جوبائیڈن بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ جب امریکی صدر جوبائیڈن کے پاس وقت ہو وہ مجھ سے بات کرسکتے ہیں لیکن اس وقت یہ واضح ہے کہ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔

سوال کیا گیا کہ آپ جو بائیڈن سے کیا بات کریں گے؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ جب مقبوضہ کشمیر کی بات آتی ہے امریکا پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اگر امریکا عزم اور خواہش کرے تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے۔

Comments are closed.