عورتوں کی فضول خرچیاں


راحیلہ مغل

وہ کہتی ہے وہ بڑا اچھا وقت تھا جب لوگ بھی سادہ اور ان کی زندگی بھی سادگی اور کفایت شعاری والی تھی۔ نمود و نمائش نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ گھر کے تمام خرچے بھی پورے ہوتے تھے۔ تقریبات اس دور میں بھی ہوتی تھیں،بلکہ گھروں میں دعوتی کھانے پکائے جاتے تھے۔ خواتین گھر میں نت نئے لباس خود تیار کرتی تھیں۔ زندگی نہایت خوبصورت طریقے سے گزر رہی تھی لیکن اچانک کیا ہوا زمانے نے اپنا رنگ روپ ہی بدل ڈالا۔

سادگی کی جگہ خود نمائی نے جگہ لے گی۔ ہر طرف پیسہ ہی پیسہ چھا گیا۔ اب وہی معزز مانا جاتا ہے جو زیادہ روپیہ خرچ کرے۔ اس لئے تو آج فضول خرچی ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ آج ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس نفسیاتی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہے کہ اسے دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔اس لئے تو ہم جھوٹے نمائشی رویے اپناتے جا رہے ہیں اور پیسے کا بے جا ضیاع ہمارا (Status Symbol) بن چکا ہے۔

اس لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل امر ہے کہ فضول خرچ ہونے میں مرد آگے ہے یا عورت؟کہا تو یہ جاتا ہے کہ عورت ہی زیادہ فضول خرچ ہے کیونکہ خود نمائی کی عادت عورت میں زیادہ ہوتی ہے۔ خاندان میں یا احباب میں کوئی تقریب یا شادی آجائے تو گھر کا سارا بجٹ درہم برہم ہو جاتا ہے اور خاتون خانہ کے مطالبات زور پکڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور بیچارہ شوہر فضول خرچیوں پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔

اپنی بیوی کے ان اخراجات کا ذکر بڑھا چڑھا کر اپنے حلقہ احباب میں سناتا ہے کہ کس طرح اس کی محنت سے کمائی ہوئی رقم اس کی خاتون خانہ اپنے رشتہ داروں کی شادی پر لٹا رہی ہے اور یہ کہ وہ کس طرح فضول خرچی کر رہی ہے۔ اس لئے عورت کو سب سے بڑا فضول خرچ ہونے کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ اکثر لوگ سردیوں میں شادی کی تقریبات کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ گرمی میں کھانا بھی خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔

میک اپ بھی خراب ہونے کا خطرہ،سخت سردی میں سوئیٹر سے بے نیاز لڑکیاں،خواتین آرائش و زیبائش،مہنگے ترین لباس فاخرہ میں سردی سے ٹھٹھرتی،سکڑتی،بلند بانگ قہقہے بکھیرتیں۔۔۔تو مرد حضرات بھی کڑھائی،تلے،دبکے ،موتی سے سجے بنے ریشم کے کرتے،شیروانیاں،قیمتی ملبوسات میں،عورتوں کی سی مشابہت اختیار کئے ہوتے ہیں۔ اُف اس فیشن پرستی نے ایسی وبائی مرض کی شکل اختیار کی ہے کہ سادگی،سیرت،کردار کی حقیقی خوبصورتی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔

شادی کے ابتدائی دنوں میں قدرے فضول خرچی ایک فطری امر ہے۔ آپ اپنی خواہشات اور احساسات کا گلا نہیں گھونٹ سکتے ۔ لیکن بہتر یہی ہوتاہے کہ دونوں سمدھی اپنی اپنی مالی پوزیشن ابتدا ہی میں ایک دوسرے پر واضح کر دیں تاکہ بعد میں کوئی رنجش پیدا نہ ہو نے پائے۔ اس سے دونوں کے درمیان صحت مندانہ تعلقات استوار ہوں گے اور ساتھ ہی نو بیاہتا جوڑا بھی ایک دوسرے کی مالی حیثیت سے پہلے سے اور بخوبی واقف ہوں گے۔

اگر دونوں ہی پارٹنر شادی سے قبل ملازمت کرتے ہیں تو وہ اچھی خاصی رقم پس انداز کر سکتے ہیں جو بعد میں ان کی ذاتی ضروریات میں کام آسکتی ہے اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی نئی زندگی کا آغاز بھرپور طریقے سے کر سکتے ہیں اور اس سے خوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

یہاں پر بھی بیوی کا آغاز ہی میں تعاون یقینا ضروری ہے۔اس لئے کہ ابتدا میں شوہر اپنی بیوی کے تمام ناز نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ لیکن بیوی کو چاہئے کہ وہ اس موقع پر حد سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے ۔ ایسے موقعوں کے لئے مشورہ یہی ہے کہ رقم خرچ کرتے وقت ایک دوسرے کے جذبات اور ضروریات کا پوری طرح خیال رکھا جائے۔ یہ عملی سوچ ان کی طویل ازدواجی زندگی میں ایک مضبوط بنیاد کی تعمیر کا سبب بن جائے گی اور اس کے نتائج بڑے دور رس ہوں گے۔

شوہروں کے لئے یہ بات نہایت غلط اور نامناسب ہے کہ وہ اپنی مالی حیثیت کے بارے میں شیخیاں بگھارتا پھرے اور دولت اور تکبر کی باتیں بناتا پھرے جبکہ اس بات کا حقیقت سے دور تک تعلق نہ ہو۔ ہرنو بیاہتا جوڑے کو بھی چاہئے کہ وہ رقم پس انداز کرے۔ اگر آپ سہیلیوں کے ساتھ باہر انجوائے کر رہی ہوں تو تب بھی کسی کے اخراجات کے بارے میں محتاط ہونا چاہئے۔

یہ ایک عام رجحان ہے کہ جب کبھی کسی پارٹی یا تقریب وغیرہ پر خرچہ کرنے چلتے ہیں تو اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ لیکن یہ رجحان کچھ عرصے بعد ہی ذہنی کرب اور افسوس کا باعث بن جاتا ہے کیونکہ اپنی جھوٹی شان دکھانے کی خاطر وہ فرد قرضوں کے جال میں جکڑا چلا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال سے بچنے کی خاطر بہتر یہی ہے کہ جھوٹی انا اور ظاہر ی شان و شوکت کے اظہار سے گریز کیا جائے اور اتنے ہی پاؤں پھیلائے جائیں جتنی کہ چادر میں گنجائش ہو بنتی ہے۔
(بشکریہ اردو پوائنٹ)

Comments are closed.