سندھ میں کورونا مریضوں کے جعلی اعدادو شمارپیش کئے جانے کاانکشاف

فوٹو:فائل

کراچی(زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کورونا مریضوں کے اعدادو شمار بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں اسپتال جا کر پتہ کرتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ کورونا وائرس سے کسی کی موت نہیں ہوئی، یہ سنسنی خیز انکشاف پی ٹی آئی کے کراچی کے رہنما خرم شیر زمان نے کیا ہے۔

تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی شیر زمان کی پریس کانفرنس نے عام آدمی کو چکرا کر رکھ دیاہے حالانکہ لوگ پہلے ہی سوشل میڈیا پر پھیلنے والے ابہام کی وجہ سے پریشان ہیں اوپر سے حکمران جماعت ایم پی اے نے اس ابہام کو اور ہوا دے دی ہے۔

کراچی میں کی گئی پریس کانفرنس میں خرم شیر زمان نے سندھ حکومت پر کورونا کے غلط اعداد و شمار بتانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبے میں کورونا وائرس کے اعداد وشمار بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی کراچی کے صدر اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ اسپتال جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہاں کورونا وائرس سے کسی کی موت ہی نہیں ہوئی ہے، وزیراعلیٰ سندھ کو سنتے ہیں تو وہ کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں۔

شیر زمان نے کہا وزیراعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ صوبے میں کاروباربند رکھنے کا فیصلہ وزیراعظم کا ہے لیکن ایسا بالکل نہیں، سندھ حکومت معیاری ضابطہ کار (ایس اوپیز) بنا کر فوری صوبے کی مارکیٹیں کھولنے کا بندوبست کرے۔

خرم شیر زمان نے کہا سندھ حکومت کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وزیر اعلیٰ سندھ ابھی تک کاروبار کھولنے کے لیے معیاری ضابطہ کار تک نہیں بناسکے، وزیراعظم نے 28 ارب روپے سندھ کی عوام کو دیے ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ صرف نوٹیفکیشن دے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ پنجاب ترقی کررہا ہے اور خیبر پختونخوا میں بیروزگاری کی شرح کم ہوئی ہے جب کہ صوبہ سندھ پیچھے ہوتاجارہا ہے اور سندھ کا حال موئن جو دڑو جیسا کردیا گیا ہے۔

خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں آج تک صفائی کا نظام ٹھیک نہیں کرپائے،کاش پیپلزپارٹی سندھ کے اسکولوں اور اسپتالوں کو ٹھیک کردیتی لیکن یہ لوگ کام کی بجائے دعووں اور الزامات کی سیاست کررہے ہیں۔

یاد رہے ہفتہ کو وزیراعلیٰ مراد علی شا ہ کی طرف سے بتائے گئے اعدادو شمار کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد10سے زائد ہو چکی ہے اور اب تک صوبے میں کورونا سے180افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

Comments are closed.