سعودی عرب، پاکستان مسلم اتحاد کیلئے مل کر کام کریں

ڈاکٹر علی عواض عسیری/سابق سعودی سفیر

سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق ذرائع ابلاغ میں ہونے والی قیاس آرائیوں کو پاکستانی قیادت نے انتہائی سلیقے سے دو ٹوک انداز میں مسترد کیا ہے۔اس ضمن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپنے متنازع بیان کی وضاحت، وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس کی توثیق اور بعد ازاں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے فوجی مقاصد کی خاطر کیے گئے دورہ ریاض نے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان غیر معمولی قریبی تعلقات کو مزید مضبوط بنا کر ثابت کیا ہے۔
یہ تعلقات وقتی جوار بھاٹے کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔تاہم یہ امر واضح ہے کہ دشمن قوتوں نے ایک منظم طریقے سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔

اس کا آغاز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اسلامی تعاون کی تنظیم ’او آئی سی‘ کے کشمیر پر کردار سے متعلق تنقیدی بیان کو غیر معمولی ہوا دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ریاض اور اسلام آباد کی راہیں جدا ہو گئی ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی معاشی امداد سے انکار کا خود ساختہ پراپیگنڈا گھڑ کر اضافی جواز تراشا گیا۔ پھر جنرل باجوہ کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سعودی عرب آمد کو غلط انداز میں ’ڈیمج کنڑول‘ کی کوشش بنا کر پیش کیا گیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کے قطعی فوجی مقاصد کے لیے دورہ ریاض میں ان کی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بغیر واپسی کو ’شاہی دھتکار‘ سے تعبیر کیا گیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خود ہی یقین دہانی کراتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ کشمیر پر سعودی عرب کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی یا سعودی عرب نے پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ واپس کرنے کا کہتے ہوئے تیل سپلائی بند کر دی ہے۔ ’یہ سب باتیں قیاس آرائیاں ہیں۔

گذشتہ ہفتے شاہ محمود قریشی کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ’ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے قلبی تعلقات ہیں جن کا مشترکہ ہدف امن کا فروغ ہے۔
اسی روز پاکستان کے دفتر خارجہ نے ’حوثی ملیشیا کے سعودی عرب پر ڈرون اور میزائل حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت‘ کرتے ہوئے فوری طور پر ایسے حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان، سعودی عرب کی سالمیت اور علاقائی استحکام کو خطرات سے دوچار کرنے والے ایسے اقدامات پر مملکت کو اپنی مکمل حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔

گذشتہ مہینے کے اوائل میں شاہ محمود قریشی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سعودی عرب، پاکستانیوں کے احساسات اور امنگوں کا اعتراف کرتا ہے‘، حتی کہ اگست 21 کو اپنے دورہ چین کے موقع پر ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ ’دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ اچھے رہے اور مستقبل میں بھی اچھے رہیں گے۔

پاکستانی وزیر خارجہ پہلے سے طے شدہ مصروفیت کی روشنی میں پاکستان اور چین کے درمیان تزوایراتی مکالمے کے دوسرے دور میں شرکت کے لیے بیجنگ میں تھے، اس کے باوجود مخصوص ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب کی طرف اقتصادی تعاون سے انکار کے بعد چین، پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے آ رہا ہے۔
جنرل باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے ایک ہی روز بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی بروقت اقدام کرتے ہوئے پاکستان، سعودی عرب تعلقات میں تناؤ سے متعلق قیاس آرائیوں کو ’قطعی طور پر بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

بالآخر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی اور نائب وزیر دفاع شہزاہ خالد بن سلمان نے قیاس آرائیاں پھیلانے والوں کو اپنی اس ٹویٹ کے ذریعے جواب دیا: ’اپنے بھائی پاکستانی فوج کے چیف آف سٹاف عزت مآب جنرل قمر جاوید باجوہ سے میری ملاقات ہوئی۔ ہم نے دو طرفہ تعلقات، فوجی تعاون اور خطے کی سکیورٹی محفوظ بنانے سے متعلق اپنے مشترکہ ہدف پر تبادلہ خیال کیا۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دفاعی تعلقات 1982 کو طے پانے والے باہمی سکیورٹی تعاون معاہدے کی روشنی میں استوار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان، مملکت کو فوجی تربیت اور دفاعی پیداواری صلاحیت کے ضمن میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
پاکستانی فوجی دستے، سعودی عرب میں تربیتی اور مشاورتی امور کی انجام دہی کے لیے مملکت میں تعینات ہیں۔
پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف اسلامی ملکوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاض میں تشکیل دیے گئے 41 رکنی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں، جو دونوں ملکوں کے قریبی فوجی تعاون کی عکاسی کرتا ہے۔ جنرل باجوہ کے حالیہ دورہ ریاض سے دونوں ملکوں کے عوام کی جانب سے سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی باہمی کوششوں کی تائید ہوتی ہے۔

دونوں ملکوں کے باہمی فوجی روابط کی طرح عوامی سطح پر تعلقات بھی تمام شک وشبے سے بالا تر ہیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں اور لاکھوں پاکستانی ہر سال مکہ اور مدینہ اظہار عقیدت کے لیے سفر اختیار کرتے ہیں۔
’میں پاکستان میں دس برس سعودی عرب کے سفیر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں۔ میں فخریہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مسلم امت اور سعودی عرب کے لیے پاکستانی عوام کی محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان، سعودی عرب تعلقات سبوتاژ کرنے کی حالیہ سازش سے سبق ملتا ہے کہ ہم ان تعلقات کا سیاسی بیانیہ ایسے ترتیب دیں جو دونوں ملکوں کے عوام کی امنگوں اور دیرپا دفاعی تعاون سے میل کھاتا ہو۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی تعاون باہمی طور پر مربوط علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ سعودی عرب، پاکستان کو اہم مسلمان ملک سمجھتا ہے۔

’میں یہ بات پاکستان سے متعلق اپنے عاجزانہ علم اور بطور ایک سعودی شہری کہہ رہا ہوں جو جو تقریبا ً نصف دہائی قبل سفارتی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوا ہے۔ پاکستان کو یقینا اس بات کا علم ہے کہ سعودی عرب بہتری کی سمت گامزن ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ نوجوانوں اور تعلیم یافتہ افراد کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
مسلم امت کو درپیش چیلنجوں کے تناظر یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ سعودی عرب کی سوچ کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ میں یہاں مملکت کا تاریخی پس منظر مختصرا بیان کرتے ہوئے حالیہ محرکات پر روشنی ڈالوں گا۔

سعودی عرب، امن اور اتحاد کو بنیاد بنا کر تقریباً نصف صدی تک کر مسلم دنیا کو قیادت فراہم کرتا چلا آیا ہے۔ اس راہ میں بڑے چیلنج سامنے آئے۔ ان میں سب سے پہلا چیلنج 1979 کو ایران میں آیت اللہ کی بغاوت تھی جس کے نتیجے میں وہاں ایسی حکومت قائم ہوئی جو دوسرے ملکوں میں فرقہ وارانہ عسکریت کے پھیلاؤ کا باعث بنی۔ عرب ملکوں بالخصوص یمن، عراق، شام اور لبنان میں آج اس کے مظاہر نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں بھی بلوچ بغاوت کے پیچھے ایران ہی عدم استحکام پھیلانے کی کارروائیاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ایران، افغانستان میں بھی ایسا ہی ملتا جلتا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ ایران اب تک علاقائی انتشار پھیلانے والی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ہم کیسے فرض کر لیں کہ چین کے ساتھ مبینہ طور پر طے پانے والا متنازع معاہدے کے بعد ایران اپنے طور طریقے بدل کر ایک متحد علاقائی دنیا کے باسیوں کے اجتماعی معاشرتی اور معاشی فوائد کے لیے کام کرنا شروع کر دے گا۔

ایران میں آیت اللہ کی بغاوت سے کئی دہائیاں پہلے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی قیادت میں سعودی عرب میں اصلاحات کا عمل جاری تھا، تاہم آیت اللہ کی بغاوت سے سب کچھ ختم کر دیا۔ آنے والے وقت میں امت کو فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم سے روکنے کے لیے مملکت کو غیر ضروری طور پر خود مصروف رکھنا پڑا۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کے ذریعے 2015 سے سعودی عرب میں جدیدیت کے نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ویژن 2030 کے تحت مملکت میں دور رس نتائج کی حامل معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کا آغاز ہوا۔

اس کے نتیجے میں مملکت کا حالیہ قومی بیانیہ نوجوانوں کی تعلیم، خواتین کو بااختیار بنانے اور عوام کو تفریح فراہمی جیسے بنیادی نقاط کے گرد گھومتا ہے۔
سعودی عرب کی معیشت کا انحصار ان دنوں تیل سے حاصل ہونے والی آمدن پر بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ زراعت، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں ترقی فی زمانہ سعودی عرب کی قومی ترجیحات ہیں۔ نیوم جیسے ہائی ٹیک نئے شہر بسائے جا رہے ہیں۔
ترقی کی سمت جاری اس عبوری سفر کے بعد مملکت میں معمولی نوعیت کی ملازمتیں کرنے والے پاکستانیوں کو مختلف شعبوں میں ماہرانہ خدمات فراہمی کے ڈھیروں مواقع ملیں گے۔
داخلی اصلاحات سے ہٹ کر سعودی عرب اپنے سرمائے کو مغربی دنیا یا عرب علاقوں سے آگے امید افزا ملکوں بشمول چین، روس، انڈیا، پاکستان اور جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) میں شامل ملکوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اپنی داخلی اور بین الاقوامی شناخت کی تشکیل کے اس مرحلے پر تلخ تاریخ کی جکڑ بندیوں کو توڑتے ہوئے ویژن 2030 میں بیان کردہ ترقی یافتہ مستقبل کی سمت قدم بڑھانا چاہتا ہے۔

ایران کے آیت اللہ اسلامی اتحاد اور سعودی عرب کی ترقی کو سبوتاژ کرنے کے لیے شاید اکیلے کافی نہ تھے کہ حالیہ برسوں میں ترکی کے رجب طیب اردوان بزعم خود سنی مسلمانوں کے رہنما کے طور پر سامنے آ گئے۔ وہ اپنے عوام کی جلتی چتا اور پڑوسی ملک شام کے باسیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے پہاڑ پر عثمانیوں کے عہد زوال کا دوبارہ احیا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے رجب طیب اردوان نے حال ہی میں ایران اور قطر سے بھی ہاتھ ملایا ہے۔ انھوں نے ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کو ساتھ ملا کر گذشتہ برس کوالالمپور میں چنیدہ اسلامی ملکوں کا اجلاس بلایا، تاہم پاکستان نے عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

اجلاس کا مقصد مسلم امت کو تقسیم کر کے جدہ میں قائم مسلم دنیا کی سب بڑی نمائندہ اسلامی تعاون کی تنظیم کا متبادل سامنے لانا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ الجزیرہ اور ٹی آر ٹی ورلڈ کے ملت کو تقسیم کرنے کے حربے ناکافی ہو گئے تھے اسی لیے اب مسلم دنیا کے دلدر دور کرنے کی آڑ میں ایک عالمی ٹی وی چینل بنانے کی باتیں سامنے آنے لگیں ہیں۔
اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی ساکھ متاثر کرنے کی سازش خلیجی ملک قطر کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ قطر طاقتور علاقائی تنظیم خلیج تعاون کونسل ’جی سی سی‘ کا رکن ہے۔ جی سی سی کی 1981 میں تشکیل کا مقصد رکن ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بچتے ہوئے ایرانی خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔
ایران جی سی سی کے رکن ملکوں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کا سہارا لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران اسی وجہ سے آج ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ایسے میں قطر کا تہران سے دوستی کا ہاتھ ملانا انتہائی عجیب بات لگتی ہے!
سعودی عرب اور متعدد دوسرے عرب ملکوں کے پاس 2017 میں قطر کے بائیکاٹ کے سوا کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں بچا تھا۔ ترکی اور ایران جیسی غیر عرب قیادت سے راہ و رسم بنانا چھوڑ کر قطر کے رہنما ہمسایہ عرب ملکوں کے ساتھ امن اور یگانگت سے رہنا شروع کر دیں تو پیدا ہونے والا بحران اپنے آپ ختم ہو جائے۔

اب تک بیان کردہ سیاسی اور جغرافیائی حقائق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ امت مسلمہ کے امن اور اتحاد کو داخلی طور پر کون سے خطرات لاحق ہیں۔ درپیش چیلنجوں سے آگاہ رہنے کے لیے ان کی نشاندہی ضروری تھی تاکہ اتحاد کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ایک نہ ایک دن مسلمانوں کی تقسیم کی سازش رچانے والے اپنے انجام سے دوچار ہوں گے۔ مکہ اور مدینہ جیسے مقامات مقدسہ تہران یا استنبول نہیں۔ دنیا کے اربوں مسلمان کعبہ کی سمت منہ کر کے دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سعودی عرب پر ہی صرف اور صرف اللہ کا انعام ہے۔

اسلامی عقیدہ دراصل پاکستانی اور سعودی ثقافت میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ملکوں کو اپنی دوطرفہ اور علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی انتہائی چابکدستی سے تشکیل دینی چاہیں تاکہ ان میں اختلافات پیدا کرنے والی دشمن قوتیں ناکامی سے دوچار ہوں۔
حالیہ بحران سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حساس موضوعات پر ’پبلک ڈپلومیسی‘ سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان اور سعودی عرب کی تزویراتی شراکت کے لیے ضرر رساں مخصوص مفادات کو عمومی ایجنڈے پر حاوی ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ مخصوص مفادات عوام کے بجائے متعلقہ حکومتوں یا ملکوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ عوام کے مفادات کا تحفظ اور خوشحالی ہر مسلمان کا مفاد ہے۔

تعلقات بحالی کے بعد معاشی محاذ پر تیزی سے ترقی ہونی چاہیے۔ دفاعی تعاون بڑھانے اور حالیہ اقتصادی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے سعودی عرب، پاکستان کو یہ یقین دہانی ضرور کرائے کہ ملک کی طویل المیعاد اقتصادی ترقی کے لیے باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کی صورت میں اسلام آباد کے لیے سعودی حمایت جاری رہے گی۔

پاکستان کو سعودی عرب میں خدمات سرانجام دینے والی ورک فورس کی صلاحیتوں میں تنوع کے لیے کام کرنا ہو گا تاکہ وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کو روبعمل لانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ مختصرا یہ کہ سیاسی تعلقات محفوظ اور سبک رفتار طریقے سے آگے بڑھ رہے ہوں تو ایسے میں معاشی اور دوسرے شعبوں میں تعاون بنیادی حقیقت بن جاتی ہے۔
(یہ مضمون سعودی ویب سائٹ ، اردو نیوز، میں شائع ہوا, ادارے کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں،۔ڈاکٹر علی العواد العسیری سعودی عرب کے سینئر سابق سفارتکار ہیں۔ آپ 2001-2009 کی مدت کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر تعینات رہے۔ ڈاکٹر العسیری نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ )

Comments are closed.