حلیمہ سلطان سوشل میڈیا پر تنقید سے اکتاگئی،فین کو کھرا جواب

ویب ڈیسک

اسلام آباد: پاکستان میں حلیمہ سلطان کے نام سے مقبول ہونے والی ترک اداکارہ اسریٰ بلیجک نے سوشل میڈیا پر بار بار لباس پر تنقید کرنے سے اکتاہٹ کا اظہار کیا اور لباس پر تنقید کرنے والے ایک پاکستانی مداح کو سخت جواب دیا ہے۔

’ارطغرل غازی“ کی ہیروئن حلیمہ سلطان کی خوبصورتی اور معصومیت دیکھ کر ان کے عشق میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جہاں ڈرامے کی خوب پزیرائی ہورہی ہے وہیں کچھ پاکستانی مداح ڈرامے کے کرداروں کی ذاتی زندگی پر بھی تنقید کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لوگ ان ڈرامہ اداکاراوں کے فوٹو سیشنز، فلموں اور ڈراموں کے کردار اور ذاتی زندگی پر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں، بہت سارے نا پختہ ذہن ان اداکاروں کو اسی کردار تک محدود دیکھنا چاہتے ہیں جو کہ انھوں نے ڈرامہ ار،طغرل غازی میں ادا کئے۔

اسریٰ ذاتی زندگی میں ڈرامے میں اپنے کردار حلیمہ سطلان سے بالکل مختلف ہیں اور عام زندگی میں مغربی طرز کا لباس زیب تن کرتی ہیں اور اس لباس میں اکثر تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کرتی ہیں جس کی لوگ سوشل میڈیا پر اصلاح اور تنقید کرتے نہیں تھکتے۔

ر کئی پاکستانی اسریٰ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ان کے لباس پر بہت زیادہ تنقید کرتے ہوئے غم و غصے کا اظہار کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ اسریٰ نے تنگ آکر انسٹاگرام پر کمنٹ ہی بند کردئیے تھے۔ پاکستانیوں کی جانب سے اسریٰ بلیجک پر تنقید کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اسریٰ کے ایک پاکستانی مداح نے ان کے لباس پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ ”حلیمہ باجی مہربانی کرکے اس طرح کے لباس نہ پہنا کریں یہ اچھے نہیں ہیں“۔اسرا بلیجک نے اس شخص کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتی ہوں مہربانی کرکے مجھے فالو نہ کریں شکریہ۔

اسریٰ بلگیچ نے پہلی بار ان کے لباس پر تنقید کرنے والے شخص کو جواب دیا ہے لہذا ان کا یہ کمنٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ جہاں سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ حلیمہ پر تنقید کرنے والے شخص کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ پاکستانیوں کو کسی کی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دینی چائیے ۔

یاد رہے کہ ڈراما ”ارطغرل غازی“ پہلی بار 2014 میں ترکی کے سرکاری ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا اردو زبان میں ڈب کرنے سے پہلے یہ سیریز 60 مختلف زبانوں میں ڈب کرکے مختلف ممالک میں دکھائی جاچکی ہے۔ پاکستان میں یہ ڈراما وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر دکھایا جارہا ہے۔

Comments are closed.