جامن کا پیڑ

کرشن چندر

رات کو بڑے زور کا جھکڑ چلا۔ سکریٹریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گرپڑا۔ صبح جب مالی نے دیکھا تو اسے معلوم پڑا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑاہے۔

مالی دوڑا-دوڑا چپراسی کے پاس گیا۔ چپراسی دوڑا-دوڑا کلرک کے پاس گیا۔کلرک دوڑا-دوڑا سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا۔ سپرنٹنڈنٹ دوڑا-دوڑا باہر لان میں آیا۔منٹوں میں گرے ہوئے درخت کے نیچے دبے ہوئے آدمی کے گرد مجمع ‘ اکٹھا ہو گیا-

بیچارا! جامن کا درخت کتنا پھل دارتھا۔ ایک کلرک بولا۔

اس کی جامن کتنی رسیلی ہوتی تھیں۔دوسرا کلرک بولا۔

میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھر‌کےلے جاتا تھا۔ میرے بچے اس کی جامنیں کتنی خوشی سے کھاتے تھے۔تیسرے کلرک نے تقریباً آبدیدہ ہوکر کہا۔

مگر یہ آدمی؟مالی نے دبےہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔

ہاں، یہ آدمی! سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا۔

پتہ نہیں زندہ ہے کہ مر گیا! ایک چپراسی نے پوچھا۔

مر گیا ہوگا۔ اتنا بھاری تنا جن کی پیٹھ پر گرے، وہ بچ کیسے سکتا ہے! دوسرا چپراسی بولا۔

نہیں میں زندہ ہوں! دبےہوئے آدمی نے بہ مشکل، کراہتے ہوئے کہا۔

زندہ ہے! ایک کلرک نے حیرت سے کہا۔

درخت کو ہٹاکر اس کو نکال لیناچاہیے۔ مالی نے مشورہ دیا۔

مشکل معلوم ہوتا ہے۔ایک کاہل اور موٹا چپراسی بولا۔درخت کا تنا بہت بھاری اور وزنی ہے۔

کیا مشکل ہے؟ مالی بولا۔ اگر سپرنٹنڈنٹ صاحب حکم دے تو ابھی پندرہ-بیس مالی، چپراسی اور کلرک زور لگاکردرخت کے نیچے سے دبے آدمی کو نکال سکتے ہیں۔

مالی ٹھیک کہتا ہے۔بہت-سےکلرک ایک ساتھ بول پڑے۔ لگاؤ زور، ہم تیار ہیں۔

ایک دم بہت سے لوگ درخت کو کاٹنے پر تیار ہو گئے۔

ٹھہرو!، سپرنٹنڈنٹ بولا،میں انڈر-سکریٹری سے مشورہ کر لوں۔

سپرنٹنڈنٹ انڈر-سکریٹری کے پاس گیا۔ انڈر-سکریٹری ڈپٹی سکریٹری کے پاس گیا۔ ڈپٹی سکریٹری جوائنٹ سکریٹری کے پاس گیا۔ جوائنٹ سکریٹری چیف سکریٹری کے پاس گیا۔

چیف سکریٹری نے جوائنٹ سکریٹری سے کچھ کہا۔ جوائنٹ سکریٹری نے ڈپٹی سکریٹری سے کچھ کہا۔ ڈپٹی سکریٹری نےانڈر سکریٹری سے کچھ کہا۔ ایک فائل بن گئی۔

فائل چلنے لگی۔ فائل چلتی رہی۔ اسی میں آدھا دن گزر گیا۔دوپہر کو کھانے پر دبے ہوئے آدمی کے گرد بہت بھیڑ ہو گئی تھی۔ لوگ طرح-طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ من چلے کلرکوں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔

وہ حکومت کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر درخت کو خود سے ہٹانے کا تہیہ کر رہے تھے کہ اتنےمیں سپرنٹنڈنٹ فائل لئے بھاگا-بھاگا آیا، بولا-ہم لوگ خود سے اس درخت کو یہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ ہم لوگ محکمہ تجارت سے متعلق ہیں اور یہ درخت کا معاملہ ہے جو محکمہ زراعت کی تحویل میں ہے۔ اس لئے میں اس فائل کو ارجنٹ مارک کرکے محکمہ زراعت میں بھیج رہا ہوں۔ وہاں سے جواب آتے ہی اس کو ہٹوا دیا جائے‌گا۔

دوسرے دن محکمہ زراعت سے جواب آیا کہ درخت ہٹوانے کی ذمہ داری محکمہ تجارت پر عائد ہوتی ہے۔یہ جواب پڑھ‌کر محکمہ تجارت کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے فوراً لکھا کہ درختوں کو ہٹوانے یا نہ ہٹوانے کی ذمہ داری محکمہ زراعت پر عائد ہوتی ہے۔ محکمہ تجارت کااس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسرے دن بھی فائل چلتی رہی۔ شام کو جواب بھی آ گیا۔ ہم اس معاملےکو ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کے سپرد کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک پھل دار درخت کا معاملہ ہے اور ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ صرف اناج اور کھیتی باڑی کے معاملوں میں فیصلہ کرنے کامجاز ہے۔ جامن کا درخت ایک پھل دار درخت ہے اس لئے درخت ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کےدائرہ اختیار میں آتا ہے۔

رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو دال-بھات کھلایا حالانکہ لان کے چاروں طرف پولیس کا پہرا تھا کہ کہیں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لےکر درخت کو خود سےہٹوانے کی کوشش نہ کریں۔ مگر ایک پولیس کانسٹبل کو رحم آ گیا اور اس نے مالی کودبے ہوئے آدمی کو کھانا کھلانے کی اجازت دے دی۔

مالی نے دبے ہوئے آدمی سے کہا،تمہاری فائل چل رہی ہے۔ امید ہے کہ کل تک فیصلہ ہو جائے‌گا۔

دبا ہوا آدمی کچھ نہ بولا۔

مالی نے درخت کے تنے کو غور سے دیکھ‌کر کہا،حیرت گزری کہ تناتمہارے کولہے پر گرا۔ اگر کمر پر گرتا تو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔

دبا ہوا آدمی پھر بھی کچھ نہ بولا۔

مالی نے پھر کہا،تمہارا یہاں کوئی وارث ہو تو مجھے اس کا اتہ پتہ بتاؤ۔ میں اس کو خبر دینے کی کوشش کروں‌گا۔

میں لاوارث ہوں۔دبے ہوئےآدمی نے بڑی مشکل سے کہا۔

مالی افسوس ظاہر کرتا ہوا وہاں سے ہٹ گیا۔

تیسرے دن ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ سے جواب آ گیا۔ بڑا کڑا جواب تھا، اورطنز آمیز۔ ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کا سکریٹری ادبی مزاج کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔

اس نےلکھا تھا ؛حیرت ہے، اس وقت جب ‘ درخت اگاؤ ‘ اسکیم بڑے پیمانے پر چل رہی ہیں، ہمارے ملک میں ایسے سرکاری افسر موجود ہیں جو درخت کاٹنے کا مشورہ دیتے ہیں،وہ بھی ایک پھل دار درخت کو!اور پھر جامن کے درخت کو! جس کا پھل عوام بڑی رغبت سےکھاتے ہیں!! ہمارا محکمہ کسی حالت میں اس پھل دار درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دےسکتا۔

اب کیا کیا جائے؟ ایک منچلے نے کہا۔اگر درخت کاٹا نہیں جا سکتا تو اس آدمی کو کاٹ‌کر نکال لیاجائے! یہ دیکھیے، اسی آدمی نے اشارے سے بتایا۔ اگر اس آدمی کو بیچ میں سے یعنی دھڑ کے مقام سے کاٹا جائے تو آدھا آدمی ادھر سے نکل آئے‌گا اور آدھا آدمی ادھر سےباہر آ جائے‌گا، اور درخت وہیں کا وہیں رہے‌گا۔

مگر اس طرح سے تو میں مر جاؤں‌گا! دبے ہوئے آدمی نے احتجاج کیا۔

یہ بھی ٹھیک کہتا ہے! ایک کلرک بولا۔

آدمی کو کاٹنے والی تجویز پیش کرنے والے نے پرزور احتجاج کیا،آپ جانتے نہیں ہیں۔ آج کل پلاسٹک سرجری کے ذریعے دھڑ کے مقام پر اس آدمی کو پھر سےجوڑا جا سکتا ہے۔

اب فائل کو میڈیکل ڈپارٹمنٹ میں بھیج دیا گیا۔ میڈیکل ڈپارٹمنٹ نے فوراًاس پر ایکشن لیا اور جس دن فائل ملی اس نے اسی دن اس محکمے کا سب سے قابل پلاسٹک سرجن تحقیقات کےلئے بھیج دیا۔

سرجن نے دبے ہوئے آدمی کو اچھی طرح ٹٹول‌کر، اس کی صحت دیکھ‌کر، خون کا دباؤ، سانس کی آمد و رفت، دل اور پھیپھڑوں کی جانچ‌کر کے رپورٹ بھیج دی کہ، اس آدمی کا پلاسٹک سرجری کا آپریشن تو ہو سکتا ہے، اور آپریشن کامیاب بھی ہو جائے‌گا،مگر آدمی مر جائے‌گا۔

لہذا یہ تجویز بھی رد کر دی گئی۔

رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کے منھ میں کھچڑی کے لقمے ڈالتے ہوئے اس کوبتایا،اب معاملہ اوپر چلا گیا ہے۔ سنا ہے کہ سکریٹریٹ کے سارے سکریٹریوں کی میٹنگ ہوگی۔ اس میں تمہارا کیس رکھا جائے‌گا۔ امید ہے سب کام ٹھیک ہو جائے‌گا۔

دبا ہوا آدمی ایک آہ بھر‌کر آہستہ سے بولا- ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو‌گے لیکن خاک ہو جائیں‌گے ہم، تم کو خبر ہونے تک!

مالی نے اچنبھے سے منھ میں انگلی دبائی۔ حیرت سے بولا، کیا تم شاعرہو؟

دبے ہوئے آدمی نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔

دوسرے دن مالی نے چپراسی کو بتایا۔ چپراسی نے کلرک کو، اور کلرک نےہیڈکلرک کو۔ تھوڑے ہی عرصے میں سکریٹریٹ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے۔

بس پھر کیا تھا۔ لوگ جوق-در-جوق شاعر کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اس کی خبر شہر میں پھیل گئی۔ اور شام تک محلے-محلے سے شاعر جمع ہونا شروع ہو گئے۔سکریٹریٹ کا لان بھانت-بھانت کے شاعروں سے بھر گیا۔ سکریٹریٹ کے کئی کلرک اورانڈر-سکریٹری تک، جن کو ادب اور شاعری سے لگاؤ تھا، رک گئے۔

کچھ شاعر دبے ہوئےآدمی کو اپنی غزلیں اور نظمیں سنانے لگے۔ کئی کلرک اس سے اپنی غزلوں پر اصلاح لینےکے لئے مصر ہونے لگے۔

جب یہ پتہ چلا کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے تو سکریٹریٹ کی سب-کمیٹی نےفیصلہ کیا کہ چونکہ دبا ہوا آدمی ایک شاعر ہے لہذا اس فائل کا تعلق نہ ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ سے ہے، نہ ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ سے بلکہ صرف اور صرف کلچرل ڈپارٹمنٹ سےہے۔

پہلے کلچرل ڈپارٹمنٹ سے استدعا کی گئی کہ جلد سے جلد اس معاملے کا فیصلہ کرکےبدنصیب شاعر کو اس شجرسایہ دار سے رہائی دلائی جائے۔

فائل کلچرل ڈپارٹمنٹ کے مختلف شعبوں سے گزرتی ہوئی ادبی اکادمی کے سکریٹری کے پاس پہنچی۔ بیچارا سکریٹری اسی وقت اپنی گاڑی میں سوار ہوکر سکریٹریٹ پہنچااور دبے ہوئے آدمی سے انٹرویو لینے لگا۔

تم شاعر ہو؟اس نے پوچھا۔

جی ہاں۔دبے ہوئے آدمی نےجواب دیا۔

کیا تخلص کرتے ہو؟

عبث۔

عبث! سکریٹری زور سے چیخا۔کیا تم وہی ہو جس کا مجموعہ کلام عبث کے پھول حال ہی میں شائع ہوا ہے؟

دبے ہوئے شاعر نے اثبات میں سر ہلایا۔

کیا تم ہماری اکادمی کے ممبر ہو؟ سکریٹری نے پوچھا۔

نہیں!

حیرت ہے! سکریٹری زور سےچیخا۔اتنا بڑا شاعر!’عبث کے پھول ‘ کا مصنف!! اور ہماری اکادمی کا ممبرنہیں ہے! اف، اف کیسی غلطی ہو گئی ہم سے! کتنا بڑا شاعر اور کیسے گوشہ گمنامی میں دبا پڑا ہے!

گوشہ گمنامی میں نہیں بلکہ ایک درخت کے نیچے دبا ہوا…براہ کرم مجھے اس درخت کے نیچے سے نکالیے۔

ابھی بندوبست کرتا ہوں۔ سکریٹری فوراً بولا اور فوراً جاکر اس نے اپنے محکمہ میں رپورٹ پیش کی۔

دوسرے دن سکریٹری بھاگا-بھاگا شاعر کے پاس آیا اور بولا، مبارک ہو،مٹھائی کھلاؤ، ہماری سرکاری اکادمی نے تم کو اپنی مرکزی کمیٹی کا ممبر چن لیا ہے۔یہ لو پروانہ انتخاب!

مگر مجھے اس درخت کے نیچے سے تونکالو۔دبے ہوئے آدمی نے کراہ کر کہا۔ اس کی سانس بڑی مشکل سے چل رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شدید تشنج اور کرب میں مبتلا ہے۔

یہ ہم نہیں کر سکتے۔سکریٹری نے کہا۔جو ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کر دیا ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کر سکتےہیں کہ اگر تم مر جاؤ تو تمہاری بیوی کو وظیفہ دلا سکتے ہیں۔ اگر تم درخواست دوتو ہم یہ بھی کر سکتے ہیں۔

میں ابھی زندہ ہوں۔شاعررک رک کر بولا۔مجھے زندہ رکھو۔

مصیبت یہ ہے، سرکاری اکادمی کا سکریٹری ہاتھ ملتے ہوئے بولا، ہمارا محکمہ صرف کلچر سے متعلق ہے۔اس کے لئے ہم نے ‘ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ ‘ کو لکھ دیا ہے۔ ‘ ارجنٹ ‘ لکھا ہے۔

شام کو مالی نے آکر دبے ہوئے آدمی کو بتایا کہ کل فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمی آکر اس درخت کو کاٹ دیں‌گے اور تمہاری جان بچ جائے‌گی۔

مالی بہت خوش تھا کہ گو دبے ہوئے آدمی کی صحت جواب دے رہی تھی مگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کے لئے لڑے جا رہا ہے۔ کل تک…صبح تک…کسی نہ کسی طرح اس کو زندہ رہنا ہے۔

دوسرے دن جب فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کے آدمی آری-کلہاڑی لےکر پہنچے تو ان کو درخت کاٹنے سے روک دیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ محکمہ خارجہ سے حکم آیا کہ اس درخت کو نہ کاٹا جائے، وجہ یہ تھی کہ اس درخت کو دس سال پہلے حکومت پی ٹونیا کے وزیراعظم نےسکریٹریٹ کے لان میں لگایا تھا۔ اب یہ درخت اگر کاٹا گیا تو اس امر کا شدیداندیشہ تھا کہ حکومت پی ٹونیا سے ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لئے بگڑ جائیں‌گے۔

مگر ایک آدمی کی جان کا سوال ہے! ایک کلرک غصے سے چلایا۔

دوسری طرف دو حکومتوں کے تعلقات کا سوال ہے۔ دوسرے کلرک نے پہلے کلرک کو سمجھایا۔ اور یہ بھی توسمجھو کہ حکومت پی ٹونیا ہماری حکومت کو کتنی امداد دیتی ہے۔ کیا ہم ان کی دوستی کی خاطر ایک آدمی کی زندگی کو بھی قربان نہیں کر سکتے؟

شاعر کو مر جانا چاہیے۔

بلاشبہ۔

انڈر سکریٹری نے سپرنٹنڈنٹ کو بتایا۔آج صبح وزیراعظم باہر-ملکوں کے دورے سے واپس آ گئے ہیں۔ آج چار بجے محکمہ خارجہ اس درخت کی فائل ان کے سامنےپیش کرے‌گا۔ جو وہ فیصلہ دیں‌گے وہی سب کو منظور ہوگا۔

شام پانچ بجے خود سپرنٹنڈنٹ شاعر کی فائل لےکر اس کے پاس آیا۔ سنتےہو؟ آتے ہی خوشی سے فائل ہلاتے ہوئے چلایا، وزیراعظم نے درخت کوکاٹنے کا حکم دے دیا ہے اور اس واقعہ کی ساری بین الاقوامی ذمہ داری اپنے سر پر لےلی ہے۔ کل وہ درخت کاٹ دیا جائے‌گا اور تم اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لو‌گے۔

سنتے ہو؟ آج تمہاری فائل مکمل ہوگئی! سپرنٹنڈنٹ نے شاعر کے بازو کو ہلاکر کہا۔ مگر شاعر کا ہاتھ سرد تھا۔آنکھوں کی پتلیاں بے جان تھیں اور چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اس کے منھ میں جا رہی تھی۔ اس کی زندگی کی فائل بھی مکمل ہو چکی تھی۔

Comments are closed.