بے چینی

شمشاد مانگٹ

مسلمانوں کی فطرت میں ہے کہ ہر وقت حالت جنگ کو پسند کرتے ہیں، مسلمان جنگجو سپہ سالاروں نے جب تک خود کو گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار رکھا ہر میدان فتح کرتے گئے لیکن پھر مخالفین نے ایسا بندوبست کردیا کہ مسلمان ایک دوسرے کیخلاف سینہ سپر ہو گئے ۔ابھی حال ہی میں بھارت سرکار نے پاکستان پر چڑھائی کا منصوبہ بنایا تو پاکستان کی ساری جماعتیں اختلافات بھول کر متحد ہو گئیں اور پورے ملک میں جنگ کیلئے جشن کاسماں دیکھا گیا۔

دشمن نے اسلامی ملک کے جوش وخروش اور پاکستانیوں کی شہادتوں کی آرزوکی شدت دیکھتے ہوئے قدم پیچھے ہٹا لئے اور اب بھارت اور پاکستان کے جنگی معاملات تقریباً پہلے والی پوزیشن پر آچکے ہیں اور پہلے ہی کی طرح سرحدوں پر بلا اشتعال فائرنگ بھی جاری ہے۔البتہ بھارت کے ساتھ امن کے معاملات طے ہوتے ہی ملکی سیاست میں گھمسان کا رن پڑ چکا ہے ۔سب سے زیادہ شدید لڑائی اس وقت تحریک انصاف کے محاذ پر ہورہی ہے۔تحریک انصاف باقاعدہ طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کیخلاف گوریلا جنگ کاآغاز کرچکی ہے۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی زد میں آکر نااہل ہونیوالے جہانگیرترین اپنے اپنے دھڑے کی قیادت کررہے ہیں۔تحریک انصاف کے یہ دونوں کمانڈر جب اپوزیشن میں تھے اس وقت بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اور واقفان حال بتاتے ہیں کہ دونوں سیاہی کمانڈروں نے عمران خان کی موجودگی میں بھی ایک دوسرے پر لفظوں کی بمباری کی تھی۔

ان دونوں کی لڑائی میں عمران خان کی پالیسی یہ ہے کہ جو کمانڈر مارا جائے گا اسے ”سیاسی شہید“ قرار دے کر معاملہ ٹھپ کردیا جائے اور جو بچ جائے اسے ”تمغہ جرات“ دے کر ساتھ رکھا جائے ۔بے شک یہ دونوں لیڈر لڑتے رہیں لیکن عمران خان کے نزدیک دونوں کی اہمیت اور ”تاثیر“ الگ الگ ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت ہر محاذ پر ناکام دکھائی دیتی ہے اور عمران خان جس طرح کرکٹ کی دنیا میں ٹیم ورک کے ماہر کرکٹر سمجھے جاتے تھے اس کے برعکس سیاست کی دنیا میں وہ ابھی تک ٹیم ورک نہیں قائم کرسکے۔

وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ سب کو یکجا کرکے عوامی مسائل کے حل کے لئے کوشش کرتے ۔فی الحال وزیراعظم عمران خان نے اپنا وزن جہانگیرترین کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی کافی سبکی ہوئی ہے۔ویسے بھی شاہ محمودقریشی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گفتار کے غازی ہیں اور اگر عملی طور پر جوڑ توڑ کرنا مقصود ہو تو وہ آزاد اراکین کو اپنے بزرگوں کی کرامات بتانا شروع کردیتے ہیں جو کہ ان کی اپنی ذات میں تقریباً ناپید ہیں اور عالم یہ ہے کہ ان کا سگا بھائی مرید حسین شاہ بھی ان کا نام لے کر راضی نہیں ہے۔

حکومتی محاذ پر دوسری بڑی لڑائی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خان کے درمیان جاری ہے ۔ارشد خان کو بہت امید تھی کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان کے ساتھ ہی وفاقی وزیر اطلاعات کی قربانی ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ فواد چوہدری نے رفتہ رفتہ غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا ہے اور اب ان کا پلڑا بھی بھاری ہے اور کہا جارہا ہے کہ ایم ڈی پی ٹی وی کو کسی بھی وقت رخصت کردیا جائے گا۔

لڑائیوں کے حوالے سے موجودہ حکومت سابق حکومت کی جانشین ہی نظر آتی ہے کیونکہ سابق حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیرخارجہ خواجہ آصف میں شدید اختلافات تھے اور پھر دونوں میں ہمیشہ کیلئے بول چال ہی بند ہو گئی۔اس جھگڑے میں چوہدری احسن اقبال نے خواجہ آصف کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور پھر ان سب نے مریم نواز کے ساتھ ملکر چوہدری نثار علی خان کو پہلے میاں نوازشریف کے دل سے نکالا اور پھر مسلم لیگ(ن) سے بھی نکال دیا اور آخر میں عوام کے دلوں سے بھی دور کردیا۔

موجودہ اور سابقہ حکومت کی لڑائیاں بھی مشترک ہیں اور”مہنگائیاں“ بھی مشترک ہیں ۔دونوں حکومتوں نے عوام کو ریلیف دینے کے بڑے بڑے دعوے کررکھے تھے لیکن مسلم لیگ(ن) بھی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی اور موجودہ حکومت کے وعدے بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔وزیراعظم عمران خان دن بھر میٹنگز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کے چہرے کی جھریاں بھی بتاتی ہیں کہ وہ بہت کام کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کی بے چینی میں مسلسل اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے اقتدار کے ابتدائی دونوں میں سب ہی مطمئن تھے لیکن موجودہ حکومت نے اپنی ”اننگز“کا آغاز ہی ملک گیر بے چینی سے کیا ہے اس وقت حکومت اور عوام میں بے چینی کا وہی منظر ہے جو ہمیشہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا خاصا رہا ہے کہ ابتدائی دس اوورز میں پانچ کھلاڑی آؤٹ ہونے سے ڈریسنگ روم میں بیٹھے ہوئے کوچ اور باقی کھلاڑی بے چین دکھائی دیتے ہیں۔1992ء کے ورلڈ کپ کے ابتداء میں بے چینی عروج پر تھی لیکن پھر رمضان المبارک کی دعائیں رنگ لے آئیں اور پاکستان عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیت گیا۔بے چینی ایک بار پھر اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور رمضان المبارک بھی قریب ہے امید ہے کہ عوام کی دعائیں اور کپتان کی محنت رنگ لائے گی اور بے چین روحوں کو قرار مل پائے گا۔

Comments are closed.