برطانیہ۔ اٹلی۔ اسکاٹ لینڈ اور امریکہ میں شدید برفباری۔ 55 افراد ہلاک

لندن(ویب رپورٹ) یورپ میں چلتے برفانی طوفانوں نے برطانیہ سمیت کئی یورپی ملکوں کو جمادیا ہے جب کہ یورپ بھر میں شدید سردی سے اموات کی تعداد 55 ہوگئی ہے۔

برطانیہ میں  ’ایما‘ اور ’مشرق کے درندے‘ طوفان کے باعث شدید برفباری اور تیز ہواؤں سے نظام زندگی بری طرح متاثر ہوگیا ہے جبکہ اب تک 10 افراد کے موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔

ملک بھر میں 4 ہزار سے زائد اسکول بند کردیئے گئے ہیں جب کہ ہیتھرو اور مانچسٹر سمیت دیگر ایئر پورٹس پر 500 سے زائد پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں۔

شدید برفباری کے باعث اسپتالوں میں آپریشن بھی منسوخ کردیے گئے ہیں اور سیکڑوں گھروں میں بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے جب کہ اسکاٹ لینڈ میں ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے فوج کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔

برف باری کے بعد برطانیہ میں مارچ کے مہینےکا تاریخ میں سرد ترین دن ریکارڈ ہوا ہے اور شہریوں کو خوراک ذخیرہ کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔

جنوب مغربی انگلینڈ اور جنوبی ویلز میں ریڈ وارننگ برقرار ہے جب کہ محکمہ موسمیات نے برطانیہ میں سخت سردی کی لہر برقرار رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

درجہ حرارت میں کمی سے لندن میں مقامی کاروبار متاثر ہوا ہے اور مصروف مارکیٹس میں بھی خریداروں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔

ادھریوکرین کے دار الحکومت کیف، اٹلی کے شہر وینس اور پولینڈ میں بھی برف باری نے شہریوں کی مشکلات بڑھادی ہیں۔

یورپ میں بھر میں بھی شدید سری کا سلسلہ جاری ہے اور نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے جب کہ برطانیہ سمیت یورپ بھر میں شدید سردی سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 55 ہوچکی ہے۔

امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں طوفان کے خطرے کے پیش نظر مختلف علاقے خالی کرانے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں جب کہ جنوبی کاؤنٹی میں طوفان کے خطرے کے باعث ہزاروں شہریوں کو پہلے ہی انخلاء کا حکم دیا گیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق مونٹی سیٹو میں 30 ہزار افراد کی محفوظ مقامات پر منتقلی شروع ہوگئی ہے جب کہ سانتاباربرا میں طوفان سے پہلے انخلاء لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

برف باری کے باعث 300 ٹرینوں کی روانگی منسوخ  اور سیکڑوں مسافر اسٹیشنز پر پھنس گئے ہیں جب کہ ہوکائیدو سے آنے جانے والی 110 پروازیں بھی منسوخ کردی گئی ہیں۔

محکمہ موسمیات نے اس برف باری کو بدترین برف باری قرار دےدیا ہے جبکہ شہریوں کو غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے کی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔(فوٹو: اے پی۔ اے ایف پی)

Comments are closed.