ایک اور میثاق جمہوریت کی ضرورت!

محبوب الرحمان تنولی

ملک بھر میں ڈھنڈورا پٹ رہا ہے ووٹ کو عذت دو۔۔ووٹ کو عذت دو کو انتخابی نعرہ بنانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔۔ خود میاں صاحب کو ووٹ لے کر ایوان میں بیٹھا منتخب وزیر رانا افضل نظر نہیں آتا۔۔اسے ایک طرف ہٹا کر ایک غیر منتخب شخص کو آئینی شق کے سہارے ایک رات میں وزیر بناتے ہو اگلے دن وہ وفاقی بجٹ پیش کردیتاہے۔۔۔ اگر جمہوریت کی پرورش کیلئے ووٹ کو عذت دینا ضروری سمجھتے ہو تو پھر خود ووٹ کو عذت کیوں نہیں دیتے؟

ایک ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیرکی جگہ نیا غیر منتخب چہرہ ایک رات تراشتے کیوں ہو؟۔۔جب خود ہی نظریہ ضرورت کے راہ کے مسافر ہوتو پھر عوام کو دن رات کیاسمجھاتے ہو؟۔۔۔عوام تو ووٹ کو بہت عذت دیتے ہیں۔۔ یہ آپ سیاستدان ہو جو تخت نشیں ہو کر اس مخلوق کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتے ہو ۔۔ ۔جن کانام لینے کا آپ میں حوصلہ نہیں ہے ووٹ کی عذت مانگ رہے ہو ان کے آپ گزشتہ کئی دہائیوں سے شراکت دار رہے ہو۔۔۔

آپ سے اتفاق کرتے ہیں جمہوریت اچھا طرز حکمرانی ہے اگر اس نظام سے انصاف کیا جائے تو۔۔ ذرا پاکستان میں آمریت کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔۔ ہر دور میں جب جب ووٹ کی عذت پامال ہوئی۔۔ ۔اگر متاثرہ فریق سیاستدان رہا ہے تو آئین معطل کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والے بھی سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔۔ جیسے بے نظیر بھٹو مرحومہ کی حکومت کے خاتمہ کے وقت آپ کے ہاں مٹھائیاں بٹ رہی تھیں ۔۔ ایسے ہی آپ کی حکومتیں ٹوٹتے ہی آپ کی سیاسی برداری ہی شادیانے بجا رہی تھی۔

ووٹ کو عذت دینی ہے تو پہلےسیاسی جماعتیں او ر سیاستدان ایک دوسرے کو عذت دو۔۔ ۔۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کااحترام کرو۔۔ اورعہد کرلو کہ نظام کے ڈی ریل ہونے پر آپ ایک ہی پیج پر ہو ں گے تو یقینا پھر آپ کوملک بھر میں ڈھونڈرا پیٹنے کی ضرورت نہیں پڑےگی ۔۔ عام آدمی بہت باشعور ہے۔۔ اسے آپ سے سروکار ہے نہ کسی اور لیڈر سے۔۔ اب عوام بھی اپنا فائدہ  دیکھتے ہیں۔۔

تحریک انصاف کا جب دھرنا زوروں پر تھا اور افوائیں گرم تھیں کہ نواز شریف کی حکومت آ ج گئی یا کل۔۔۔ایک بلاوے پر استاد طاہر القادری اور عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقاتیں کی تھیں۔۔۔ یہ قوم گواہ ہے پیپلز پارٹی جمہوریت کے نام پر آپ کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔۔ شہر شہر طعنے سنتے رہے لیکن خورشید شاہ نعر ہ مستانہ بلند کرتے تھے کہ ہم کسی کو نظام لپیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔۔ انھوں نے پھر ووٹ کو ہی عذت دی اور نظام کو نہیں چھیڑا۔۔

نوازشریف صاحب ! ذرا یاد کریں آپ کی حکومت اور وزرا ء نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا کیا؟ ۔۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے تو ایوان میں حکومت پر لاٹھی چارج کرلیا تھا لیکن بعد میں وزراء کے لہجوں میں رعونت اورالفاظ میں وہ زہر تھا کہ جمہوریت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے والی پیپلز پارٹی بھی پشیماں نظر آئی۔۔۔کیا آپ نے جمہوریت کے حق میں ووٹ دینے والوں کو عذت دی؟۔۔۔نہیں ناں۔۔۔بس یہی مکافات عمل ہے جس پر آج آپ بہت ناخوش ہیں۔

تاریخ کاایک اور ورق الٹ لیں ۔۔ ۔ ذرا اپنے حافظے پر زور دیں۔۔ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو شاید ایسے نہیں لیکن مشکل حالات درپیش تھے۔۔ آپ عدالت میں بھی ان کے مخالف تھے ۔۔ اور عوا م میں بھی۔۔اب آپ خود اعتراف کرتے ہیں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چایئے تھا۔۔ مگر اب اس اعتراف کا فائدہ۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔۔آپ نے کبھی وزراء سے کہا کہ اتنی سخت زبان استعمال نہ کریں۔۔ آپ تو انجوائے کرتے تھے ۔۔

عمران خان نے جب الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر چار حلقے کھولنے کی بات کی تھی تو یقینا وہ بھی ووٹ کو ہی عذت دینے کا معاملا تھا۔۔ آپ کو بھی اور جمہوریت کوبھی۔۔ وہ پارلیمنٹ میں مطالبہ کرتے رہے لیکن آپ کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔۔۔ورنہ چار حلقے بروقت کھل جاتے۔۔ جانچ پڑتال ہو جاتی تو شاید پی ٹی آئی اور ن لیگ میں اتنی تلخی اور رنجشیں نہ ہوتی جو آج آپ کے دامن گیر ہیں۔۔ آپ نے تب بھی گھر کا مسلہ گھر حل نہیں کیا۔۔ جب ووٹ کو عذت نہ ملی تو وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔

ہمیں آپ کے اندر پانامہ کے بعد جاگنے والے نظریہ اور مثبت سوچ پر کوئی شک نہیں ہے۔۔ یقین جانیئے میں سمجھتا ہوں کہ اب آپ درست ٹریک پر آئے ہیں۔۔ اب آپ میں آئین اور قانون کی بالا دستی کی عقل داڑھ نے کام شروع کردیاہے۔۔ افسوس اس سوچ نے تب جنم لیا جب آپ کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا۔۔ آپ تاحیات نا اہل ہیں۔۔۔اللہ کرے آگے چل کر آپ کو ریلیف ملے ۔۔ پابندیاں ختم ہوں تو آپ اپنی سوچ کو زندہ رکھیئے گا۔۔ ابھی آپ پھنسے ہوئے ہیں ۔۔ آپ کے نظریہ پر لوگ شک کررہے ہیں۔

وفاق ہی نہیں پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں بھی آپ کی حکومتیں ہیں۔۔آپ اب بھی اپنے نظریہ اور سوچ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو سیاسی جماعتوں سے الجھنے یا سیاستدانوں سے لڑائی کی بجائے عوا م میں خود پر اعتماد کو پختہ کریں۔۔ انھیں باور کرائیں کہ اب کی بار آپ ان کے شراکت دار کبھی نہیں بنیں گے جن سے ووٹ کی عذت مانگتے ہیں۔۔ ۔بلکہ سب سے بہتر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سے لندن میں کئے گے میثاق جمہوریت طرز کا کوئی نیا معاہدہ بھی کریں جس میں سب جماعتیں شامل ہوں۔

ووٹ کو عذت دینا یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کے ساتھ وفادار ہوں۔۔ کاموں پر تنقید کریں، ایک دوسرے کی سیاسی کمزوریوں کی نشاندہی کریں لیکن ذاتی حملے نہ کریں۔۔۔ہم نے ماضی قریب میں دیکھا جب آپ کے سینئرز ساتھی خاموش یا کم بولتے رہے آپ نے ایک نئی برگیڈ بنا لی جو مخالفین پر نشتر برساتے اور آپ سے داد لیتے رہے۔۔ پھر ایک ایک کرکے سب وزیر بن گئے۔۔ اور ن لیگ کی سیاست کی بنیاد شہباز شریف اور چوہدری نثار کی مفاہمتی سیاست کو پس پشت ڈال دیاگیا۔

عوام کی ووٹوں کی بجائے سہاروں پر جو بھی آگے آئے گا وہ مرضی سے چل نہیں سکے گا۔۔ یہ بات طے شدہ ہے۔۔ کاش آپ نظام کو اتنا مضبوط کر دیتے کہ آئندہ انتخابات میں شفافیت پر انگلیاں نہ اٹھ سکیں۔۔یہ کام کرنا ناممکن نہیں ہے بس اخلاص کی ضرورت ہے۔۔ چور راستوں کی سوچ اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ انھیں عوام کی طاقت یا جمہوریت پر یقین نہیں ہے۔۔ ووٹ کی سب سے بڑی عذت یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں جس کی بھی حکومت بنے تمام سیاسی جماعتیں اس کے مینڈیٹ کاحترام کریں۔۔ اس کیلئے بڑا میثاق جمہوریت وقت کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.