نا اہل قیادت کی کہانی

خضر کلاسرا

ڈاکٹرجاویدکنجال صاحب نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد کال کرکے پوچھاکہ خضر کہاں ہو ،میں بتایا میڈیا ٹاﺅن ہوں تو کہا تمہارے لیے اتنی رعایت ہے کہ ساڑھے آٹھ بجے تک آئی ایٹ کے حبیبی ریسٹورنٹ پہنچ جاﺅ ۔ میں سمجھ گیاکہ ڈاکٹرصاحب لیہ کی طرح یہاں بھی میزبان ہی ہونگے ۔آئی ایٹ پہنچا تو پتہ چلاکہ ڈاکٹر جاوید کنجال نے تو بڑی تعداد میں اپنی برادری اور دوست احباب کو مدعو کیاہوا ہے۔

ان کی اس حکمت عملی کے پیچھے راز یہ تھا کہ موصوف تھوڑے وقت میں زیادہ دوستوں سے ملاقات کے بعد لیہ پہنچنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی حسب معمول محفل اچھی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر تھکاوٹ عیاں تھی ۔شاید محسوس تو سب نے کیاہو لیکن سوال میں نے اٹھایاکہ ڈاکٹر صاحب آج تھکے تھکے لگ رہے ہیں تو انہوں نے کہا خضر آپ خو دہی بتاﺅ صبح نو بجے سے لیہ سے سفر کا آغا ز کیاتھا اور اب کہیں جاکے تھوڑی دیر پہلے ہی براستہ بھکر، میانوالی تلہ گنگ ایم ایم روڈ پر اسلام آباد پہنچا ہوں ۔بدقسمتی ہے تھل کے عوام کیلئے موٹروے ، ایکسپریس ہائی وے سے لیکر کوئی ڈھنگ کا روڈ بھی نہیں ہے ۔اتنی خراب روڈ ہے کہ الامان الحفیظ ۔

ادھر شہبازشریف نے ساری توجہ لاہور پر مرکوز کی ہوئی ہے ۔اب تو حد یوں ہوگئی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی ڈسچارج سلپ پر بھی اپنی تصویر چھپوادی ہے ۔میں نے عرض کیاکہ شکر کریں انہوں نے ابھی ادھر ادھر اپنی تصویر چھپوائی ہے ،کہیں وہ نوٹ پر بھی اپنی فوٹو چھپانے کا حکم دے دیتے تو کوئی کیاکرسکتاتھا ؟۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ لیگی شریفوں نے پنجاب سمیت پورے ملک کے نظام کو ایسے باندھ کر رکھ ہواہے کہ اپوزیشن جماعتوں تک لولی لنگڑی ہوکر رہ گئی ہیں ۔اب اپوزیشن کا کام ادارے کررہے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید کنجال صاحب سے لیہ کی سیاست کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہناتھاکہ میںتو مسلسل عوام کیساتھ ربطے میں ہوں اور اس بار الیکشن میں جارہاہوں ۔توقع ہے کہ لیہ کے عوام انصاف کریں گے اور ہماری خدمت کا جواب محبتوں کیساتھ دیں گے ۔

ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کے دوران راقم الحروف نے سوال اٹھایاکہ ضلع کونسل لیہ کے پاس جوفنڈز تھے ، وہ لیہ کے عوام کی فلاح وبہبود اور ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوئے ہیں یا وہ پڑے کے پڑے ہی رہ گئے ہیں ؟ ۔ڈاکٹر جاوید کنجال نے خود جواب دینے کی بجائے اپنے ایک عزیز جوکہ ان کی حمایت سے ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے ہیں اور بحیثت اپوزیشن رکن ضلعی اسمبلی کی ساری صورتحال سے واقف تھے کی طرف اشارہ کیا کہ یہ بہتر بتاسکتے ہیں ۔ اس پر رکن نے بتایا کہ ضلع کونسل لیہ کے پاس 54کروڑ روپے کی خطیر رقم تھی جوکہ لیہ کے عوام کی منتخب کردہ اسمبلی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہیں کرسکی ۔

راقم الحروف کیلئے اس بات کا انکشاف یقینا تکلیف دہ تھا ۔ اس کیساتھ ڈاکٹر جاوید کے کزن اسلم صاحب جوکہ اسلام آباد میں ہوتے ہیں ،انہوںنے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ واقعی لیہ جیسے پسماندہ علاقہ کی ضلع کونسل اس حدتک گئی گزری ہے کہ فنڈز موجودگی کے باوجود عوام کو کوئی منصوبہ نہیں دے سکی ۔

اس صورتحال پر میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ہمارے جیسے لوگ تو پنجاب اسمبلی جوکہ لاہور میں ہے ،اس کا رونا روتے رہتے ہیں کہ وہ ہمارے فنڈز کھاجاتے ہیں۔ ہمیں خبر نہیں ہونے دیتے ہیں ۔لیہ ہسپتال کیلئے مختص فنڈز واپس منگوالیتے ہیں اور لاہور کی سٹرکوں پر خرچ دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم اس بات پر تکرارکرتے ہیں کہ قومی اسمبلی جوکہ تخت اسلام آباد میں ہے ،وہاں پر بھی ہمارے حقوق کا تحفظ نہیں ہوتاہے اور فنڈز غائب کردئیے جاتے ہیں لیکن یہاں تو کہانی ہی الٹ ہے ۔

ضلع کونسل لیہ جوکہ لیہ کے ارکان پر محیط ہے ،یہاں پر تخت لاہور کا کوئی شخص موجود نہیں ہے ۔عمر اولکھ چیئرمین ہیں تو نورمحبوب وائس چیئرمین ہے جوکہ ریکارڈ کے مطابق یہاں کے رہائشی ہیں ۔اسی طرح دیگرارکان ضلعی اسمبلی کا تعلق لیہ کی تینوں تحصیلوں ہے لیکن حالت یہ ہے کہ 54کروڑ جیسی بڑی رقم پڑی کی پڑی رہ گئی لیکن داد دیں ان کو کہ انہوں نے کوشش کرکے اس کو ترقیاتی منصوبوں پر خرچ نہیں ہونے دیاہے ۔

یوں ڈاکٹر جاوید کنجال سمیت سارے دوست خوش نہیں تھے لیکن ادھر لیہ کے عوام بالخصوص وکلا کو بھی شاباش دیں کہ انہوں نے بھی ان نااہل اور نالائق نمائندوں کو اس کارنامے پرتازہ تازہ تاحیات نااہل لیگی لیڈر خواجہ آصف کے یاد گار الفاظ نہیں کہے جو انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان کی موجودگی میں کہے تھے کہ کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے ۔

ڈاکٹر صاحب کے پرتکلف کھانے کے بعد شکریہ کا وقت آیا تو ڈاکٹر کنجال سے دوسرے دن ملنے کا وعدہ کیالیکن وہ وعدہ ہی کیاجو وفا ہوگیا۔یوں ڈاکٹرصاحب سے معذرت ہی ہو سکتی ہے ،امید ہے وہ قبول کریں گے ۔ضلع کونسل لیہ کے چیئرمین سمیت دیگر ارکان کی طرف سے اس نااہلی اور نالائقی کے بارے میں لیہ کے معروف صحافی انجم صحرائی صاحب سے پوچھاتو انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا خضر تم بھی سادہ ہو، اسلام آباد رہ کر بھی تم لیہ کی خاندانی سیاست کو نہیں سمجھ سکے ہو ۔بھائی کمیشن کا چکر تھا

۔ 54کروڑ روپے تھے ،کوئی چھوٹی رقم تو نہیں تھی کہ یہ سمجھدار خاموش رہتے ۔انہوں نے تو دست و گربیان ہوکر ایک دوسرے سے فائلیں بھی اس لیے چھینی تھیں کہ54کروڑ روپے کا کمیشن طے نہیں ہورہاتھا ۔

میں عرض کیاحضور لیہ جیسے پسماندہ ضلع میں تو پائی پائی خرچ ہونی چاہیے ۔جہاں ایک طرف دریا ئے سندھ کے کٹاﺅ نے بڑی تعداد میں لیہ کے غریبوں پر زمین تنگ کر دی ہے اور آپ جیسے لوگ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب سے دریا کے کٹاﺅ کے شکار خاندانوں کی آبادی کاری کیلئے ازخود نوٹس کی درخواست کررہے ہیں تو دوسری طرف ضلع کونسل لیہ کے پاس 54 کروڑ روپے سرنڈ ر ہوگئے لیکن خاموشی ہے ۔

( صحافی وتجزیہ کار )

Comments are closed.