امریکہ چین کی وجہ سے بھارت کو اہمیت دیتا ہے،عمران خان


اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح میں بھی غیر روائتی سیاستدان ہوں،امریکی الیکشن میں بائیڈن مقبول نظر آتے ہیں لیکن ٹرمپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم امریکا سے چاہتے کیا ہیں، امریکا سے بھارت کے تناظر میں مساوی رویہ دیکھنا چاہتے ہیں، مقبوضہ کشمیر پر امریکا سے دونوں ملکوں کے ساتھ یکساں پالیسی کی توقع ہے۔ خطے میں کشیدگی کسی وقت بھی بھڑک سکتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا بھارت اپنے ہمسائے ممالک کو دھمکیاں لگاتا ہے، امریکا چین کی وجہ سے بھارت کو اہمیت دیتا ہے، خطے میں بھارت کو اہمیت دینے کا امریکی طرز عمل خامیوں پر مبنی ہے، بھارت چین بنگلا دیش ، سری لنکا، پاکستان کے لئے خطرہ ہے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا نائن الیون حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ القاعدہ افغانستان میں تھی۔ نائن الیون کے بعد ہمیں اپنی فوج کو اس جنگ میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں پہلے سے ہی دن اس لڑائی میں شامل ہونے کا مخالف تھا۔ تاہم امریکا نے دباؤ ڈالا جس کے باعث سابق صدر پرویز مشرف یہ دباؤ برداشت نہ کر سکے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1980ء میں اسامہ بن لادن کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کی حمایت کی۔ سی آئی اے اس معاملے پر اسامہ کا حامی تھا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کا حق تھا کہ طالبان کو تسلیم کریں، لیکن پاکستان کا طالبان پر کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا پاکستان نے طالبان سے درخواست کی کہ اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کیا جائے تاہم طالبان نے یہ درخواست مسترد کر دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں 27 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اسی کی وجہ سے ہمارے پاس تھوڑا بہت اثر و رسوخ تھا، جس کے باعث طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لے آئے، پاکستان افغانستان میں امن چاہتاہے۔

عمران خان نے کہا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہم نے 70 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں، ہماری سرحدی علاقے اس جنگ کی وجہ سے تباہ ہو گئے، ان علاقوں کے آدھے سے زائد لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، جس دن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی ہم نے مذاکرات کو ترجیح دی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کے سابق وزیراعظم حکمت یار نے حالیہ الیکشن میں حصہ لیا اور وہ اپنے ملک کے آئین کو مانتے ہیں۔ میں نے افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ سے بھی بات کی۔ اور بتایا کہ جنگ زدہ ملک میں ہم کسی سائیڈ کی طرف نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا ہماری صرف دلچسپی اس امر میں ہے کہ افغانستان کی جو بھی نئی حکومت آئے اس پر بھارت کا اثر و رسوخ نہ ہو تاکہ ہمسایہ ملک کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو سکے۔

انٹرویو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے مغربی ممالک سے زیادہ ہے، میں نے آزادی کے لفظ کا استعمال بہت محتاط انداز میں کرتا ہوں، میں اپنی زندگی کی دو دہائیاں برطانیہ میں گزاری، وہاں پر بہتان سے متعلق بہت زیادہ مضبوط قوانین ہیں۔

عمران خان نے کہا بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے، بطور وزیراعظم مجھ پر بہت سارے بہتان لگے، انصاف کے لیے عدالت بھی گیا تاہم انصاف نہ مل سکا۔

مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے وزیراعظم پی ٹی آئی حکومت جب اقتدار میں آئی تو سب سے پہلے میری حکومت یمن میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھی۔ اس کے لیے ایران سے بات بھی کی جبکہ سعودی عرب سے محمد بن سلمان سے بھی رابطہ کیا، تاہم ہم کسی پر مذاکرات کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتے۔

تہران اور ریاض کے درمیان جنگ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ جنگ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو گی۔ خاص طور پر غریبوں کے لیے جنگ بہت خوفناک ہو گی، تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں جس سے بہت سارے ممالک کو مسائل در پیش ہوں گے۔

متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے اسرائیل سے تعلق کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہے کیونکہ یہ ممالک اپنی عوام کا سوچتے ہیں، پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ اس معاملے پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے۔ ہمارا موقف قائداعظم نے 1948 میں واضح کر دیا تھا کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔

فلسطینیوں کی انصاف کے مطابق آبادکاری نہیں ہوتی جو کہ فلسطینیوں کا دو قومی نظریہ تھا کہ ان کو ان کی پوری ریاست ملے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک غریب اس لیے ہے کہ کیونکہ یہ وسائل کی کمی ہے، کیونکہ ملکی لیڈر شپ کرپٹ ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا پانامہ پیپرز میں سب کچھ عیاں ہوا، جس میں بتایا گیا کہ پاکستان سے کروڑوں ڈالرز پراپرٹی حاصل کرنے کے لیے لندن بھیجے گئے۔

اپوزیشن سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں ان کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا، یہ لوگ مجھے بدعنوانی کے مقدمات سے بری کرنے کے لیے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں انہیں کوئی ریلیف نہیں دوں گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ جب اقتدار میں آیا تو امپورٹ 60 ارب ڈالر تھی جبکہ ایکسپورٹ محض 20ارب ڈالر تھی، ملکی روپیہ کمزور ہوا جس کے باعث مہنگائی بڑھی، اور چیزیں مہنگی سے مہنگی ہوتی گئیں، ہم نے اپنا ریونیو بڑھانے کے لیے کچھ چیزیں مہنگی بھی کیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری اہلیہ بہت سمجھدار خاتون ہیں، حکومت میں مسائل سے متعلق ان سے بات کرتا ہوں، ان سے پیچیدہ معاملات پر بھی بات ہوتی ہیں۔وہ میری ہمسفر ہیں، میں ان کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔

Comments are closed.