اقلیت یا فتنہ

محمد مبشر انوار

تحریر شروع کرنے سے پہلے مکرر اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت کا یہ مجھ گناہ گارپر خاص الخاص لطف و کرم و بے پایاں عنایت ہے کہ مجھے نہ صرف کلمہ گو بنایا بلکہ اپنے محبوب ترین پیغمبر محمد مصطفی ﷺ کا امتی بنا کر باقی دنیا سے ممتا زکر دیا۔ میرے ایمان کے تقاضوں میں ایک طرف اپنی ربوبیت و وحدانیت کااقرار بنیاد قرار دیا تو دوسری طرف کامل ایمان کی شرط اولی میں اپنے مجبوبؐ کو خاتم المرسلین تسلیم کرنے کی شرط رکھ دی اور ساتھ سرکاردوعالم ﷺ سے ہر دنیاوی چیز سے زیادہ محبت کو لازم قرار دیدیا۔

سرکاردوعالم محمد مصطفی ﷺکے صحابہ کرام ؓ بالعموم فرط محبت و جذبات میں آپؐ کی پکار کا جواب ہی ایسے دیا کیا کرتے کہ فداک امی و ابی یا رسول اللہﷺ، جو ان کے ایمان کی کاملیت کو ظاہر کرتا،یہ محبت،الفت فقط الفاظ کی حد تک محدود نہ تھے بلکہ اس کا عملی اظہار صحابہ کرامؓنے بارہا اپنے عمل سے دیا۔ صحابہ کرامؓ کے اس عمل نے تا قیامت سرکار دوعالمؐ کی امت کے لئے وہ راستے،طریقے متعین کر دئیے کہ جن پر چل کر وہ نہ صرف محبوب خداؐ کی بلکہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔

پاکستان نظریاتی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیالہذا اس کے قوانین میں نظریات کی چھاپ واضح اور ان کا اثر زیادہ ہے۔ آئین پاکستان میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ حاکمیت اعلی فقط اللہ کی ذات ہے جبکہ پاکستان میں بنائے جانے والے قوانین کا منبع و ماخذ قرآن و حدیث ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ منبع و ماخذ قرآن و حدیث ہونے کے باوجود حکومتیں آج تک قرآن سے واضح طور پر متصادم سودی معیشت سے جان چھڑوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی.

حکومتیں ایک طرف ایسی معاشی زنجیروں میں جکڑی ہیں کہ اس لعنت سے جان نہیں چھڑوا پاتی تو دوسری طرف ”گلوبل ویلج“ میں ہماری حیثیت ایک کمی کی سی ہے کہ ہر حکومت کشکول لئے ہر در پر بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس سودی معیشت سے چھٹکارا حاصل کر پائیں؟خیر یہ تو سرراہ بات آگئی،اصل مدعا یہ ہے کہ پاکستان بحیثیت اسلامی ریاست،اسلامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے،غیرمسلموں کو اقلیت قرار دیتے ہوئے ان کے ان حقوق کی ضامن ہے،جو اسلام،ایک اسلامی ریاست میں تفویض کرتا ہے۔

یہاں مزید بات کرنے سے پہلے یہ واضح ہو جائے کہ کسی بھی ریاست میں اقلیت کون کہلاتی ہے؟سب کو علم ہے کہ انسانوں کا وہ گروہ جو کسی بھی ملک میں تعداد میں کم ہوں،وہ اس ملک میں اقلیت کہلاتے ہیں،جیسے پاکستان کا بیا ن کردہ دین ”اسلام“ ہے اور وہ جو منکرین خدا، یا مشرکین خدا ہوں،ان سب کو پاکستان میں اقلیت قرار دیا گیا ہے لیکن وہ جو ”دین اسلام“ میں کامل داخل ہونے کی بجائے اس میں تحریف کرتے ہوئے،اسلام کے بنیادی عقائد کو باطل ثابت کرنے پر تلے ہوں.

خود کو ”مسلمان“ اور چودہ سو سال قبل آنے والے اسلام کے پیروکاروں کو غیر مسلم قرار دیں،ان کو کیا کہا جائے؟بقول ان کے وہ خود کو اقلیت کی تعریف کے مطابق اقلیت ماننے کو تیار نہیں،اقلیت کی عالمی تعریف کے منکر ہوتے ہیں تو دوسری طرف خاتم المرسلینؐ کا انکار کر کے مسلم اکثریت کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں۔

اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی 26نومبر 1974میں پارلیمنٹ کے مشترکہ طویل اجلاس میں،قادیانیوں کے خلیفہ وقت مرزا ناصر احمد قادیانی اور ان کے رفقاء کو اپنا مؤقف بیان کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا، سرکار دوعالم ؐ کے خاتم النبین ہونے اور مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والے کو مسلم تسلیم نہ کرنے پر،انہیں اقلیت قرار دے دیا گیا۔ یہ فتوی وقت کے جید علماء کرام نے قادیانیوں کے کفر سے بھرپور مؤقف کو نہ بدلنے کی بنیاد پر دیا، آئین میں انہیں غیر مسلم کہا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا تھا کہ بطور پاکستانی شہری،قادیانیوں کے کیا حقوق ہو سکتے ہیں؟

کیا انہیں ایک اسلامی یاست میں رہتے ہوئے اسلامی شعائر سے روگردانی /منکرہونے پر زندہ رہنے کا حق بھی دیا جا سکتا ہے یا ان کی سزا موت ہے؟اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تو احکامات انتہائی واضح ہیں کہ ایسے مرتدین کا فیصلہ صرف اور صرف تلوار کرتی ہے جبکہ تاریخ اسلام کے اولین امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس کا عملی ثبوت فراہم کیا۔ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف جہاد کا اعلان کر کے اس ”فتنہ“ کا فوری قلع قمع کیا.

جس کے لئے امیرالمؤمنین صدیق اکبرؓ کسی بھی مشکل کو خاطر میں نہیں لائے اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو ایسا جڑ سے اکھاڑا کہ ایک زمانے تک کسی بھی جھوٹے نبی کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔ ان معرکوں کا مقصد فقط دین اسلام کی سرفرازی تھی اور وہ جذبہ حب رسولؐ تھا کہ جس کی بدولت ایک مسلمان کا عقیدہ و ایمان سلامت رہتا ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں مسلمان کے عقیدہ و ایمان کی روح ہی ختم ہو جاتی ہے۔

ریاست مدینہ میں جب یہودیوں نے اپنی زیر زمین سازشوں کو انگیخت کیا اور رسول خداؐ کے لئے مشکلات و پریشانیوں میں اضافے کا سبب بنے،مسلمانوں پرحیات تنگ کرتے چلے گئے،باہمی امن کے تمام تر معاہدوں کے برخلاف رہے تو ان کی سازشوں سے نجات پانے کے لئے یہودیوں کے خلاف برسر پیکار آنا پڑا۔ جس کے نتیجہ میں یہودیوں کو ہمیشہ کے لئے سرزمین حجاز سے بے دخل کر دیا گیا،اس کے باوجود ان سے تجارت کی جاتی رہی مگر یہ ریاست مدینہ سے باہر ہی ممکن ہوتی،یہودیوں کے لئے حجاز مقدس ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا تا آنکہ دجال کا ظہور نہ ہو جائے۔

دجال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ شہر کے باہر تک پہنچ جائے گا مگر اسے روضہ رسولؐ نظر نہیں آئے گا۔ آج مسلمان ممالک کی صورتحال اس حد تک نا گفتہ بہ ہے کہ یہ اپنے دفاع کے لئے بھی یہودو نصاری کے زیر نگین ہے،باالفاظ دیگر مسلمان آج اس قابل بھی نہیں کہ اپنا دفاع تک خود کرنے کے قابل ہو سکیں،اس کی وجہ ایک طرف مسلم حکمرانوں کی اپنی کوتاہیاں ہیں تو دوسری طرف غیر مسلموں کی جدید علوم پر زبردست گرفت ہے۔ علاوہ ازیں،گلوبل ویلج میں رہتے ہوئے یہ بھی ممکن نہیں کہ کاروبار میں ان سے لاتعلقی برتی جا سکے کہ اس وقت عالمی منڈی میں انہی غیر مسلموں کی ایجاد کردہ اشیاء برائے فروخت ہیں۔

پاکستان بنتے ہی سب سے پہلے وزیر خارجہ کے لئے نظر انتخاب،جس پر ٹھہری وہ بھی ایک قادیانی تھے مگر اس وقت تک سب کی نظریں اور مفادات ریاست پاکستان تھی لیکن جیسے ہی معاملات میں تھوڑا ٹھہراؤ آیا اور قادیانیوں کا کردار اور اسلوب سامنے آنے لگا تب بتدریج ان کو امور ریاست سے بے دخل کیا جانے لگا اور بال آخر انہیں 1974میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔آج گلوبل ویلج میں رہتے ہوئے کیا پاکستان کسی قادیانی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے؟کسی اہم جگہ پر تعینات کر سکتا ہے؟انہیں اقلیت قرار دے کر کسی کمیشن کا حصہ بنا سکتا ہے؟لیکن اس وقت جب ایسا کوئی بھی قادیانی ریاست پاکستان کے مفادات کے خلاف نہ جائے،جو تقریباُ نا ممکن ہے۔

حکومت وقت نے اس وقت جو قدم اٹھایا ہے کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن کا رکن بنایا جائے، لیکن قادیانیوں کو آئین پاکستان کے تحت ہی ان تمام امور کی قطعا کوئی اجازت نہیں ہونی چاہئے جس میں انہیں نہ تو تبلیغ کی اجازت ہو،نہ کھلی جگہ عبادت کر سکیں،نہ اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر سکیں،اسمبلیوں میں نمائندگی کی اجازت نہ دی جائے،مرزا غلام احمد قادیانی کا جنم دن یا برسی منا سکیں۔منکر خاتم النبی ؐ کا انجام اسلام میں انتہائی واضح کر دیا گیا ہے لیکن اگر آپ ان کو انجام تک نہیں پہنچا سکتے،آپ کے پیروں میں معاشی بیڑیاں ہیں، تو کم ازکم اپنے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی ان مرتدین کو ان کی اوقات میں تو رکھ سکتے ہیں،اس کو اقلیت نہیں بلکہ ”فتنہ“ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعتا اقلیت سے کہیں زیادہ ایک فتنہ ہے۔

Comments are closed.