175سیاسی جماعتوں سے صرف پی ٹی آئی کےانٹراپارٹی الیکشن مسترد کئے گئے

51 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: الیکشن کمیشن کو 175سیاسی جماعتوں سے صرف پی ٹی آئی کےانٹراپارٹی الیکشن مسترد کئے گئے ہیں جب کہ پی ٹی آئی ہی اس لسٹ کی واحد جماعت ہے جس کے انٹراپارٹی انتخابات مسترد کئے گئے ہیں اس سے قبل تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔

اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں آئینی و قانونی ماہر بیرسٹر ظفر اللہ کہتے ہیں کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جب کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن نے مسترد کئے ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی شق سنہ 2002 میں آئی۔’اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ پارٹی اکاؤنٹس دیں اور الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹریشن کروائیں۔ یہ سنہ 1962 کا قانون تھا۔ اس کو بے نظیر بھٹو نے چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے بے نظیر کے حق میں فیصلہ دیا۔

رپورٹ میں ظفراللہ نے وضاحت کرتےہوئے کہا کہ سنہ 2002 کا آرڈر اس بارے میں وضاحت کرتا ہے کہ آپ کیا کریں گے تو آپ کو پارٹی نشان ملے گا یعنی آپ کی پارٹی کا آئین ہو، نام ہو۔

’سنہ 2017 کے ایکٹ میں اُس کے لیے ممبر شپ کی شرط اور فیس بھی رکھ دی گئی۔ لہذا تاریخ میں ایسا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا کہ کسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کیا گیا ہو۔ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن مسترد کر دینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

آئینی ماہر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ ہوا تھا کہ سنہ 1985 کےانتخابات ہوئے تو دستیاب لسٹ میں سے تلوار کا نشان ہی ختم کر دیا گیا تھا، اس لیے نہ تو پارٹی یہ نشان لے سکتی تھی اور نہ ہی انفرادی سطح پر کوئی اُمیدوار۔

ظفر اللہ خان کے مطابق ’اس نشان کو آزاد اُمیدوار کے ساتھ ساتھ کوئی سیاسی جماعت جس کو کوئی نشان ابھی تک نہیں ملا، وہ بھی لے سکتی ہے۔ اگر ہم تلوار اور بلے کے نشان ختم ہونے کا کوئی موازانہ کریں تو یہ نہیں بنتا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ مخصوص نشان کوئی دوسری جماعت اور سیاسی اُمیدوار بھی لے سکتا ہے۔

Comments are closed.