آڈیو لیکس کیس ، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایف آئی اے ذاتی حیثیت میں طلب

45 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے پیش ہو کر بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواست کا تحریری حکم نامہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاری کردیا، جس میں جسٹس بابر ستار نے ڈی جی آئی بی اور ڈی جی ایف آئی اے کو 19 فروری 2024ء کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کر لیا۔

حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے کسی انٹیلیجنس ایجنسی کو ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا تمام شہریوں کی پرائیویسی اور حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ آڈیو لیکس سوشل میڈیا پر کس نے ریلیز کیں؟ ایف آئی اے نے جواب کے لیے مہلت طلب کی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے آڈیو لیکس شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاوٴنٹس کی تفصیل کے ساتھ رپورٹ پیش کرے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے پیش ہو کر بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟۔

دوران سماعت آئی ایس آئی نے وزارت دفاع کے ذریعے آڈیو لیکس پر اپنی رپورٹ جمع کرائی، جس کے مطابق آئی ایس آئی کے پاس سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی معلومات کے سورس کا تعین کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں۔ انٹیلی جنس بیورو انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرے کہ آڈیو لیکس کن اکاوٴنٹس سے شیئر ہوئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کی آڈیو شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاوٴنٹس کی تفصیل جمع کرائیں۔ ڈی جی آئی بی بتائیں کہ پاکستان میں شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے؟۔ یہ بھی بتائیں کہ کیا ریاست پاکستان کے پاس غیر قانونی سرویلنس سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہے؟۔

Comments are closed.