کس کے پاس دماغ ہے اور کس کے پاس نہیں؟
فوٹو فائل
آکسفورڈ: دماغ کا ہونا انسانی تجربے کے لیے اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی زندگی کا تصور کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ تاہم، بہت سے جانداروں کے پاس دماغ نہیں ہوتا ہے اور وقت کے پہیے کو اگر کافی پیچھے گھمایا جائے تو شاید ہماری اپنے اجداد سے ملاقات ہو جن کے پاس دماغ نام کی شے موجود نہیں تھی۔ تو سوال پیدا پوتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا دماغ کب اور کس کے اندر وجود میں آیا؟
اس حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں ارتقائی ترقی کے ماہر حیاتیات سیبسشین شیملڈ اعتراف کیا کہ یہ سوال ایک مشکل سوال ہے۔ یہ فرق کرنا بھی مشکل ہے کہ کس کے پاس دماغ ہے اور کس کے پاس نہیں، کیونکہ ہمارے پاس دماغ کی قطعی تعریف موجود نہیں۔
تاہم دوسری جانب سائنس دانوں نے دماغ نہ رکھنے والے جانوروں کو علیحدہ کر کے دماغ کے ارتقائی ماخذ پر کچھ مطالعہ فراہم کیا ہے۔ مثال کے طور پر اسپونج میں کوئی نیورانز نہیں ہوتے اس لیے وہ علیحدہ کردیے گئے۔ اسی طرح جیلی فش اور سمندری انیمونز میں نیوران کا نیٹ ورک تو ہوتا ہے لیکن ان میں ہمارے دماغ جیسا کوئی مرکزی اعصابی نظام موجود نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر سیبسشین نے کہا کہ تقریباً 600 ملین سال پہلے جانوروں کا ایک گروہ تیار ہوا جس میں دماغ کا صرف آگے کا اور پچھلا حصہ موجود تھا۔ آگے کا وہ حصہ جہاں اعصابی نظام کرسٹلائز ہوتا ہے کیونکہ یہ جانور کا وہ حصہ ہے جو ماحول سے براہ راست تجربہ حاصل کرتا ہے۔
ڈاکٹر سیبیسشین نے مزید کہا کہ مکمل اعصابی نظام سب سے پہلے ممکنہ طور پر ایک لمبے، پتلے کیڑے والے جانور میں تیار ہوا تھا۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس کے بعد باقی جتنے میں دماغ رکھنے والے جانور آئے وہ سب اسی کیڑے کے اعصابی ڈھانچے سے ماخوذ ہیں۔
آج بہت سی انواع ہیں جن میں کچھ غیر فقاری (invertebrate) جانور بھی شامل ہیں جیسے آکٹوپس جس کا دماغ ہمارے جیسا کام کرتا ہے۔ آکٹوپس کا دماغ بھی ادراک، رویے اور میموری جیسے اعلیٰ افعال کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز ہے، اور یہ سب کچھ صرف ایک کیڑے کے سر میں موجود نیورانز کے نظام سے وجود میں آیا۔
Comments are closed.