ایم کیو ایم اوراے این پی نے اپنے تحفظات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیئے

45 / 100

فائل:فوٹو

ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں اور لیول پلئینگ فیلڈ پر تحفظات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ دیئے۔ متحدہ کی قیادت کو چیف الیکشن کمشنر سے امید تو ہے مگر یقین نہیں ایم کیو ایم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سندھ تقسیم ہو چکا صرف اعلان باقی ہے۔ سندھ میں نگران حکومت کم اور پیپلزپارٹی کی حکومت زیادہ ہے ، پیسہ بولتا ہے اور بول رہا ہے۔ ، اگر صاف شفاف انتخابات نہیں ہوئے تو بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا اے این پی کے رہنما نے میاں افتخار حسین نے کہتے ہیں ضابطہ اخلاق سے متعلق تحفظات ہیں کمیشن کو آگا ہ کیا۔

لیول لیئنگ فیلڈ، حلقہ بندیوں سے متعلق خدشات، اعتراضات اور انکے ازلے کیلئے متحدہ کا وفد الیکشن کمیشن پہنچا۔ فاروق ستار، خالد مقبول، جاوید حنیف اور عبد الحفیظ پر مشتمل وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور اپنے خدشات سے آ گاہ کیا۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ چیف الیکشن کمشنر سے بڑی امید ہے لیکن کم بخت یقین نہیں آرہا سیکندر سلطان راجہ کے نیچے ٹیم کمپرومائزڈ ہے، ہمارے اعتراضات اتنے واضح تھے کہ سب نے اتفاق کیا۔ نگران حکومتیں آگئی ہے۔مگر سندھ میں ہم نگران حکومت کے منتظر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہالیکشن کمیشن نے سندھ سے متعلق کسی اعتراض پر غور نہیں کیا۔ انتخابی طور پر سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ،صرف اعلان باقی ہے۔ انتخابات کا جانبدارانہ ہونا بہت واضح ہوتا جارہا ہے۔

اس موقع پر فاروق ستار نے الزام لگایا کہ حلقہ بندیوں میں غلطیوں کو مزید بگاڑ دیا گیا،پیپلز پارٹی کا بہتا ہوا پیسہ شاہد الیکشن کمیشن میں بھی آگیا ہے، حلقہ بندیوں میں اتنی ناانصافی کے بعد لیول پلیئنگ فیلڈ کی کیا بات کرینگےَ۔پیوند کاری کے ذریعے پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچا دیا گیا۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ اگر ملک میں صاف شفاف انتخابات نہیں ہوئے تو بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔

اے این پی رہنماء میاں افتخار حسین نے کہا ہمارا مطالبہ ہے انتخابات شفاف ہونے چاہیں کمیشن کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا

میاں افتخار حسین نے مزید کہا کہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت تبادلے کیے جارہے ہیں اگر معاملات یوں ہی چلے تو پری پول ریگنگ ہوگی غیرجانبدار افسران کی تعیناتی فوری طور پر کی جائے ہمارا مطالبہ بروقت اور شفاف انتخابات ہیں جو شیڈول جارہی ہونے جارہا ہے اسی پر غیرجانبدار انتخابات ہوں۔

Comments are closed.