لاہور ہائیکورٹ کا بغیر لائسنس گاڑی اور موٹرسائیکل چلانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم

52 / 100

فائل:فوٹو

لاہور: لاہور ہائیکورٹ کا بغیر لائسنس گاڑی اور موٹرسائیکل چلانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم ،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جس کے پاس لائسنس نہیں ہوتا تو کوئی اپنے آپ کو جج کا بیٹا، کوئی وکیل اور کوئی صحافی کہتا ہے بتائیں ڈیفنس واقعہ کے بعد بغیر لائسنس گاڑیاں چلانے والے کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے لاہور کے علاقے ڈیفنس میں کار حادثے میں 6 افراد کی ہلاکت کے واقعہ میں دفعہ 302 شامل کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔

عدالتی حکم پر چیف ٹریفک آفیسر اور ایس ایس پی آپریشنز عدالت میں پیش ہوئے، پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب غلام سرور عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے استفسار کیا کہ ڈیفنس کار حادثہ انتہائی افسوسناک ہے بتائیں لاہور میں کتنے لوگوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے ؟ جس پر سی ٹی او نے عدالت کو بتایا کہ لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 73 لاکھ ہے جس میں صرف 13 لاکھ افراد کے پاس لائسنس ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جس کے پاس لائسنس نہیں ہوتا تو کوئی اپنے آپ کو جج کا بیٹا، کوئی وکیل اور کوئی صحافی کہتا ہے، آپ بتائیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر کیسے بغیر لائسنس گاڑیاں چل رہی ہیں ؟ بتائیں ڈیفنس واقعہ کے بعد بغیر لائسنس گاڑیاں چلانے والے کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔

سی ٹی او نے کہا کہ بغیر لائسنس گاڑیاں چلانے والے 919 افراد کیخلاف مقدمات درج کر کے گرفتار کیاگیا، رواں سال 14 لاکھ افراد کو لرنر لائسنس جاری کئے ہیں۔

پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ ملزم افنان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا، ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر گاڑی کے مالک کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، افنان کے والد کی گرفتاری کیلئے رات گئے چھاپے مارے گئے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ بغیر لائسنس کے گاڑی رجسٹرڈ نہیں ہو سکتی، لاہور ہائیکورٹ کا 2018 کا فیصلہ ہے اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ بعدازاں جسٹس علی ضیاء باجوہ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے بغیر لائسنس گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کہا کہ کوئی بھی شخص لائسنس کے بغیر گاڑی پر نہ آئے، ہر چوک میں ہر سگنل پر پولیس کی نفری تعینات کی جائے، کم عمر گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کیخلاف بلاتفرق کارروائی کی جائے۔

Comments are closed.