سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا

45 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں زمین کے معاوضے سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکووٴں اور ریاست میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے ، عدالتوں کے ساتھ شفاف رویہ ہونا چاہیے ، نظام انصاف سے مذاق کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔جبکہ سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔

سپریم کورٹ میں زمین کے معاوضے کی کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور سرکاری افسران پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے ایک سال قبل حکم جاری کیا تھا، ایک سال بعد بتایا جارہا ہے کہ معاوضے کی ادائیگی کا عمل جاری ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں اور آپکو عوام کی جیبوں سے تنخواہیں ملتی ہیں، ہماری کارکردگی صفر ہے، ڈاکووٴں اور ریاست میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے ، عدالتوں کے ساتھ شفاف رویہ ہونا چاہیے ، نظام انصاف سے مذاق کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ 17 نومبر 2022 کو عدالت نے حکم جاری کیا ، پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایک متفرق درخواست دائر کردی گئی ہے، ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی طرف سے جواب جمع کروا دیا گیا، حکومت پنجاب نے بشیراں بی بی کی زمین کی ملکیت کو تسلیم کیا، 26 مارچ 1990 سے معاوضے کی ادائیگی کا کہا گیا، بشیراں بی بی کی زمین پر ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر سے متعلق ملکیت تسلیم کی۔

عدالت نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر پر بشیراں بی بی کو کتنا معاوضہ دیا جائے گا ، جب حکومت کسی فرد کی ملکیت تسلیم کرے تو سمجھ سے بالاتر ہے معاوضہ کیوں نہیں دیا گیا، لاہور سے کچھ افسران کو سپریم کورٹ بھیجا گیا کہ ہمیں ممبر صاحب نے بھیجا ہے، ہم نے سوال کیا کیوں آئے ہیں، جواب نہیں دیا گیا، سرکاری ملازمین کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے، ممبر کے نام کے ساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنا مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے، دفاتر میں سرکاری ملازمین کیلئے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے ، آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت تک بشیراں بی بی کو معاوضہ دیا جائے ، اگر معاوضہ نہ دیا گیا تو محکمہ پنجاب کے ممبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ثناء اللہ زاہد نے استدعا کی کہ وکلاء کو انکے طریقہ کار کے مطابق سنا جائے، اگر آپ کہتے ہیں تو میں استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کھلی عدالت میں سماعت ہورہی ہے، ایک سال بعد آکر بتایا کہ ابھی تک معاوضے کی ادائیگی سے متعلق کچھ نہیں کیا گیا، آپ نے عدالت کو شرمندہ کردیا۔

بعدازاں عدالت نے دو ماہ میں بشیراں بی بی کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

Comments are closed.