بجلی میٹرز کی تنصیب میں تاخیرسے بچنےکےلے خود کارنظام متعارف

50 / 100

فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: بجلی میٹرز کی تنصیب میں تاخیرسے بچنےکےلے خود کارنظام متعارف کرایا جارہا ہے اور اب صارفین کوبجلی کمپنیوں کے دفتروں کے چکرنہیں کاٹنے پڑیں گے۔

پاکستان میں بجلی میٹرز کی تنصیب میں مہینوں کی تاخیر کے حوالے سے خبررساں ادارے اردونیوز سے گفتگو کرتے ہوے لیسکو کے مینیجر کریڈٹ محمد مسعود نے بتایا لیسکو نے بجلی کے میٹروں سے متعلق پالیسی بدل دی ہے۔ اب اس سسٹم سے ملازمین کا عمل دخل ختم کیا جا رہا ہے۔

ایک خود کار نظام تیار کیا گیا ہے جو جلد کام شروع کر دے گاانھوں نے بتایاانہوں نے کہا کہ ’اس نئے ڈیجیٹل نظام میں درخواست جمع کروانے کے بعد صارفین کو ان کے موبائل فون پر ان کے بجلی کے میٹر کا سٹیٹس دستیاب ہو گا۔

صارفین گھر بیٹھ کر دیکھ سکیں گے کہ میٹر کی منظوری کس مرحلے میں ہے۔ دفتر کے چکّر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ جو تاریخ اور وقت دیا جائے اس کے مطابق میٹر نصب ہو گا اور یہ ریکارڈ آن لائن ہو گا۔

لیسکو کے مینیجر کریڈٹ محمد مسعود کا کہناہے کہ ساری مینجمنٹ کے پاس ہو گا جس کا مطلب ہے کہ اس عمل میں سو فیصد شفافیت آ جائے گی۔

خیال رہے کہ بجلوں کے میٹرز کی قلّت کے دوران صارفین اس بات کی شکایت بھی کرتے رہے ہیں کہ کچھ کے میٹرز تو لگ رہے ہیں جبکہ کچھ کو ٹالا جا رہا ہے تاہم اب پورے سسٹم کو آن لائن کر کے ان شکایات کا تدارک کیا جا رہا ہے۔ 

پاکستان میں استعمال ہونے والے بجلی کے میٹر زیادہ تر چین سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ لیسکو کے مینیجر کریڈٹ محمد مسعود نے بتایا کہ ’بجلی کے میٹرز کے کئی پُرزے چین سے آتے ہیں۔

پرزےپاکستان میں اسمبل ہوتے ہیں۔ جب امپورٹ پر پابندی لگی تو اس کے بعد دیگر خام مال کے ساتھ بجلی کے میٹروں کا بھی خام مال آنا بند ہو گیا لیکن اب سپلائی کھل گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب میٹروں کی شارٹیج نہیں رہی۔ پچھلے ہفتے لیسکو نے 30 ہزار بجلی کے میٹر لگائے ہیں جن لوگوں کی درخواستیں زیر التوا تھیں انہیں ترتیب وار اب میٹر مل رہے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 2سالوں میں پانچ لاکھ سے زائد درخواستیں لیسکو کو موصول ہوئی ہیں جن میں بجلی کے میٹرز کی تبدلی سے لے کر سب میٹرز اور نئے میٹرز کی درخواستیں شامل ہیں۔

محمد مسعود نے بتایا کہ ’صرف لیسکو ہی نہیں تمام کمپنیوں کو میٹرز کی شارٹیج کی وجہ سے دقّت کا سامنا رہا ہے تاہم اب صورت حال بدل رہی ہے۔

 

Comments are closed.