جڑانوالہ میں توہینِ مذہب پرشدید ردعمل،4 گرجا گھرو مکانات جلا دیئے گئے

51 / 100

فوٹو: سوشل میڈیا

فیصل آباد: جڑانوالہ میں توہینِ مذہب پرشدید ردعمل،4 گرجا گھرو مکانات جلا دیئے گئے، ہجوم توہین مذہب کے مبینہ واقعہ پر مشتعل تھا اس دوران مشتعل افراد نے 4 گرجا گھر، مسیحی برادری کے درجنوں مکان، گاڑیاں اور مال و اسباب جلا دیے۔

ضلع فیصل آباد کے شہر جڑانوالہ میں مشتعل افراد نے کرسچین کالونی اور عیسیٰ نگری میں 4 گرجا گھروں، مسیحی برادری کے درجنوں مکان، گاڑیاں اور مال و اسباب کو نذر آتش کیا۔

ڈپٹی کمشنر علی عنان قمر کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے، شہر میں امن و امان کی مکمل بحالی اور صورتحال معمول پر آنے تک دفعہ 144 نافذ رہےگی۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، سابق وزیر اعظم شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، مریم نواز و دیگر کی جانب سے واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے جڑانوالا میں اقلیتوں کی املاک پر حملوں کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہ اپنے بیان میں کہا کہ جڑانوالا کے مناظر نے دہلا کر رکھ دیا ہے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

انہوں نے بیان میں کہا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جڑانوالا واقعے کے ذمہ داروں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت بھی جاری کردی ہیں، نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ حکومت تمام پاکستانیوں کا مساویانہ تحفظ کرے گی۔

نجی ٹی وی ڈان نیوز سے گفتگو میں تحصیل جڑانوالہ کے پادری عمران بھٹی نے بتایا کہ عیسیٰ نگری میں واقع سیلویشن آرمی چرچ، یونائیٹڈ پریس بیٹیرین چرچ اور شہرون والاچرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مسیحی جس پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس کے گھر کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی تصاویر میں چرچ کی عمارتوں سے دھواں اٹھتا اور لوگوں کو فرنیچر کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ایک عیسائی قبرستان کے ساتھ ساتھ مقامی حکومت کے دفتر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔

آئی جی پنجاب عثمان انورنے بتایا کہ متاثرہ علاقے کی پتلی گلیوں میں 2 سے 3 مرلے پر مشتمل چھوٹے گرجا گھر واقع ہیں اور ایک مرکزی چرچ بھی موجود ہے، گرجا گھروں کے کچھ حصوں میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔

حکام نے بتایا کہ امن کمیٹوں کے ساتھ رابطے قائم کر کے صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور صوبے بھر میں پولیس کو متحرک کر دیا گیا ہے۔

عثمان انور نے مزید بتایا کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے کیونکہ لوگ ان کے خلاف ہو گئے تھے۔

دوسری طرف مسیحی رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں چرچ آف پاکستان کے صدر بشپ آزاد مارشل نے بیان جاری کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ بائبل کی بے حرمتی کی گئی ہے اور قرآن شریف کی بے حرمتی کے جھوٹے الزامات عائد کرکے مسیحی افراد پر تشدد اور انہیں ہراساں کیا گیا ہے۔

Comments are closed.