فیاض الحسن نے بھی پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا، عمران خان پر تنقید
اسلام آباد: سابق صوبائی وزیر اورتحریک انصاف کے رہنما فیاض الحسن نے بھی پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا، عمران خان پر تنقید کرتےہوئے کہا مجھے تو زمان پارک داخل ہونے سے روک دیاگیا تھا۔
اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو میں پارٹی چھوڑنے کااعلان کیا اور
9 مئی کو جو واقعات ہوئے میں اس پر دکھی ہوں، فوج کے ساتھ محبت ، میری ذات اور میرے خاندان کے اندر رچی بسی ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان کی خیر مقدم کرتا رہوں گا، ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرتا رہوں گا،ارٹی لیڈر شپ نے نو مئی کے واقعات روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، ہمیں سیاست عدم تشدد کے ساتھ کرنی چاہیے۔
فیاض الحسن چوہان نے کہا سیاست میں انتہا پسند اور دہشت گردی نہیں آنی چاہیے، ریاست کے ساتھ ٹکرانا سیاستدانوں کا کام ہے، فیاض الحسن چوہان نے بار بار کہا ہمیں تشدد کی طرف نہیں جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا گزشتہ ایک سال سے کھڈے لائن تھا، مئی میں ختم ہونے کے بعد بڑی مشکل کے بعد میں نے عمران خان سے میڈیا ایڈوائزر کا عہدہ لیا، میرا زمان پارک میں داخلہ بند تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے درد دل سے عمران خان سے سمجھایا کہ عدم تشدد کی پالیسی چھوڑ دیں، اداروں اور ریاست کی پالیسی چھوڑ دیں، اپنی جدوجہد سیاست رکھیں، پی ڈی ایم اور حکمرانوں کے خلاف تنقید کریں، سب کو پتہ تھا کہ نیب اور نیازی میں کتنا گٹھ جوڑ تھا۔
پریس کانفرنس میں کہا میں عمران خان کو وزیراعظم پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں، آپ کے اردگرد کے لوگ صحیح مشورہ نہیں دے رہے، سیاسی انداز سے جدوجہد کریں، عدم تشدد کو چھوڑ دیں۔
فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ فواد چودھری، شہباز گل، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، عالیہ حمزہ ، شیریں مزاری سمیت دیگر مطلوب اور مخصوص لوگ تھے جو عمران خان کے ساتھ تھے اور فوج مخالف بیانات دلواتے تھے۔
کہا کور کمیٹی کا ممبر تھا، لیکن بعد میں مجھے اس سے نکال دیا گیا، میں نے پھر بھی پارٹی نہیں چھوڑی اور وفا نبھاتا رہا،میرے گھر کو بیگم صفدر کے کہنے پر اور رانا ثناء اللہ کے کہنے پر گھر کا تباہ کیا، میرا ہی نہیں بھائی اور بہنوں کا بھی گھر تباہ کر دیا گیا۔
اس تشدد کے بعد عمران خان نے کوئی رد عمل نہیں دیا، میرے گھر کے چار لوگ بھی گرفتار ہوئے، میرا بھتیجا، بہنوئی، میرا بھانجا اور میں گرفتار ہوا، خان صاحب کو فلک ناز، شیریں مزاری سمیت دیگر لوگ یاد آئے لیکن میں یاد نہیں آیا.
انہوں نے کہا کہ میں ایک سال سے پانچ منٹ کی ملاقات کے لیے عمران خان سے منتیں کرتا رہا، فواد چودھری، شہباز گل، مسرت جمشید چیمہ نے راہ میں روڑے اٹکائے، میں روز قربانی دے رہا ہوں۔
سابق صوبائی وزیرنے کہا مجھ پر پرچے ہوئے، اسمبلی کے باہر مجھ پر تشدد کیا گیا۔ عامر کیانی، صداقت عباسی سمیت سب بھاگ گئے، لیکن میں راولپنڈی میں ڈٹا رہا۔
فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ عون چودھری، چودھری سرور کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا، عمران خان مجھے فون کر کے کہا ان کے خلاف باتیں کرو، میں سب کے خلاف باتیں کیں، علیم خان میرا اچھا دوست ہے، میں نے ان کے خلاف بھی باتیں کیں۔
فیاض الحسن نے کہا میں نے ان کے ساتھ اپنا تعلق خراب کر لیا، 10 اپریل کو ہماری حکومت گرائی، 17 جولائی میں میاں اسلم، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، ہمایوں یاسر سمیت دیگر کی ایک پریس کانفرنس نہیں ہوئی لیکن یہ سب محاذ میں نے اکیلا سنبھالا ہوا تھا۔
یہ تمام لوگ چودھری سرور کے ساتھ مل کر عثمان بزدار کی حکومت گرانے میں مصروف تھے،اُن کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں، اسمبلی کے اندر اور باہر میں نے پریس کانفرنسیں کیں، متحرک کردار ادا کیا، 17 جولائی کو الیکشن جیتے، چپ رہنے والے وزارت مل گئی۔
مجھے کچھ نہیں ملی، میری عزت پرویز الٰہی نے بچائی، میرا ان کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، انہوں نے مجھے اپنا ترجمان بنا لیا۔حافظ فرحت کے ذریعے مجھے سخت پیغام عمران خان نے بھیجا تھا۔
Comments are closed.