عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
فائل:فوٹو
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے درخواست کی سماعت کی، جس پر عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرمنل کیسز میں مختلف اسٹیجز پر ملزم کی حاضری کی مختلف صورت ہوتی ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میشا شفیع کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے ملزم کی حاضری کی اجازت دی گئی۔ عمران خان کو عدالتوں میں حاضری کے وقت سکیورٹی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ عمران خان کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کا اندراج ہو رہا ہے۔ اس وقت تک 120 سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹیکنالوجی کا جہاں استعمال ہو سکتا ہے ہونا چاہیے۔ یہ سارا معاملہ لیکن صرف عمران خان کی حد تک نہیں۔ اس درخواست پر فیصلے کے دیگر مقدمات پر بھی اثرات ہوں گے۔ شواہد ریکارڈ ہونے کے دوران تو میشا شفیع کیس کا اطلاق ٹھیک ہے۔ کیس میں فرد جرم بھی عائد ہونا ہوتی ہے کیا وہ بھی ویڈیو لنک پر ہو گی؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کرمنل ٹرائل میں ملزم کی حاضری ضروری ہوتی ہے۔ کوئی رولز ابھی موجود نہیں جو ان کے مؤقف کو سپورٹ کرتے ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی آر پی سی 1898 کی ہے تب تو ویڈیو لنک بھی نہیں تھی۔ میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں رول بنانے کا اختیار موجود ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں جب تک رول نہیں بنتے تب تک اجازت نہیں ہو سکتی ؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان کے کیس میں کیا Discrimination نہیں ہو گی ؟۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پٹیشنر (عمران خان) ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔کیا ٹرائل کورٹس کے پاس ویڈیو لنک حاضری کا دائرہ اختیار ہے ؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کیا کریمنل کیس میں کوئی رُول ویڈیو لنک کی اجاذت دیتا ہے؟۔ کرمنل ٹرائل میں تو فیصلہ سننے کے لیے بھی ملزم کی موجودگی لازم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوگل صاحب سی آر پی سی 1898 کی ہے۔ اُس وقت ظاہر ہے ویڈیو لنک نہیں تھا اس کا قانون میں ذکر نہیں۔ قانون ساز اگر چاہتے تو جدید تقاضوں کے مطابق اسے بدل سکتے تھے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں ٹیکنالوجی کا جہاں ہو سکے استعمال ہونا چاہیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ کسی خاص فرد کو یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ جو بھی آرڈر ہو وہ بلا تفریق ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھارتی سپریم کورٹ تو ویڈیو لنک پر فیصلہ دے چکی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بھارت میں 2005 سے لے کر سسٹم انسٹال کیا گیا۔ پورا سسٹم لگانا ہوگا کہ کیا ویڈیو لنک پر موجود ملزم کمرے میں اکیلا ہے۔
منور اقبال دوگل نے دلائل میں مزید کہا کہ عمران خان کو ویڈیو لنک کی سہولت دینا ایک تفریق پیدا کرنا ہو گا۔ ایک اور سابق وزیر اعظم کو اپیل میں بھی ویڈیو لنک کی سہولت نہیں ملی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہاں سیاسی پہلو پر دلائل نہیں دینے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا انڈیا میں ویڈیو لنک ٹرائل ہو رہے ہیں؟ کیا یوکے ، یو ایس اے میں کوئی فیصلہ آیا ویڈیو لنک پر؟۔ کیا ان ممالک میں کسی عدالت نے کہا ویڈیو ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ امریکی اور برطانوی عدالت نے کہا کیس ٹو کیس دیکھا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کرمنل ٹرائل میں یہی ہے کہ ہر چیز ملزم کے سامنے ہونی چاہیے۔ اگر ویڈیو لنک پر تمام تقاضے پورے ہو رہے ہیں تو ٹرائل ہو سکتا ہے ناں؟۔ فرد جرم میں ملزم نے دستخط کرنا ہوتے ہیں وہ بھی الیکٹرانک ہو سکتے ہیں۔ ویڈیو لنک کی درخواست منظور ہونے کا فائدہ صرف عمران خان کو نہیں ہوگا۔ اس فیصلے کا فائدہ تو سب کو ہو گا ۔ اب تو امتحانات آن لائن ہو رہے ہیں۔ میرے بیٹے کا ہوا ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا کل کسی بیرون ملک موجود ملزم کو بھی یہ سہولت دی جا سکے گی؟ دیکھنا ہو گا کیا کسی بیرون ملک موجود ملزم کو اپیل میں بھی یہ سہولت ملے گی؟۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ آج عمران خان کے 16 کیسز لگے ہوئے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر عمران خان کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی ملزم پاکستان ہی میں رہنے کی انڈرٹیکنگ دے تو اسے سہولت ویڈیو لنک مل سکتی ہے۔ اگرکوئی ملزم اشتہاری نہیں ہے تو اسے بھی سہولت مل سکتی ہے۔ یہاں بات عمران خان کی ہے جو روز کئی عدالتوں میں جا رہے ہیں۔ عمران خان گزشتہ روز بھی لاہور ہائیکورٹ پیش ہوئے تھے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا پہلے رولز بنائیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ عدالت عمران خان کو لاہور میں کسی اپنی بتائی جگہ پر آنے کا کہہ سکتی ہے۔ یہ عدالت عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ سے آکر ویڈیو لنک پر آنے کا کہہ سکتی ہے۔ کسی بھی کنٹرولڈ ماحول والی جگہ پر بلا کر ویڈیو لنک پر کیا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی اجازت سے متعلق درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Comments are closed.