صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ بل نظرِثانی کیلئے واپس پارلیمنٹ کو بھجوادیا

44 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد:صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ بل نظرِثانی کیلئے واپس پارلیمنٹ کو بھجوادیا،،،،صدر مملکت کاکہناہے کہ مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین ، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے ، مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔

صدر ِپاکستان نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس ارسال کردیا ۔

صدر عارف علوی کاکہناہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے ، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی (colourable legislation ) ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔میرے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پورا کرنے کیلئے دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیلی ، ایڈوائزری ، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین ، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے ، مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے ، صدر مملکت
صدر مملکت نے سوال کیا کہ یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ آئین ایک اعلیٰ قانون ہے ، قوانین کا باپ ہے آئین کوئی عام قانون نہیں ، بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کاروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے ، آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی۔

صدر مملکت کاکہناہے کہ سپریم کورٹ رولز 1980 ء پر سال 1980 ء سے عمل درآمد کیا جارہا ہے جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کاروائی ، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے، ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔

ان کاکہناتھا کہ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کاروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ،۔آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں ،۔آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا ،۔آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے، آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے، فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔ فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔

، صدر عارف علوی نے کہا کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے بل کے ان پہلووٴں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.