پولیس اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافیوں پر تشدد کا مقدمہ درج کرنے سے انکاری
فائل:فوٹو
اسلام آباد :اسلام آبادپولیس آٹھ روز گزرنے کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافیوں پر تشدد کا مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے۔
سرکاری وکیل نے آج اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی پو ، پولیس کے بغیر دستخط جواب جمع کرانے پر عدالت نے حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔
ملوث اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس اہلکاروں کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے کی۔
متاثرہ صحافی ثاقب بشیر ، ذیشان سید ، شاہ خالد اور ادریس عباسی اپنے وکیل زاہد آصف ایڈوکیٹ کے ہمراہ پیش ہوئے دوران سماعت پولیس دستخط شدہ جواب جمع کرانے میں ناکام رہی ہے پولیس نے تشدد کے وقوعہ کے 8 روز بعد جواب جمع کرانے کی مہلت مانگ لی۔
عدالت نے استفسار کیا بغیر دستخط کے کون سا جواب ہوتا ہے ؟ عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے جلدی نمٹائیں ، کیس میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے آئندہ سماعت پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔
سرکاری وکیل نے کہا ہائیکورٹ میں ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر بھی انکوائری چل رہی ہے جس میں تین لوگ انکوائری میں شامل نہیں ہوئے
صحافی ذیشان سید نے کہا 28 فروری کو اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف مقدمہ اندراج کی درخواست دی ڈی آئی جی آفس سے بذریعہ واٹس ایپ انکوائری کے لیے بلایا گیا شام 4 بج کر 48 منٹ پر نوٹس آیا کہ 5 بجے شامل تفتیش ہو صحافی احتشام کیانی نے کہا ہمیشہ پولیس صحافی پر تشدد کرتی ہے ۔
جج نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ بولتے جو ہیں۔ صحافی فیاض محمود نے کہا اس بات میں آپ کو شعر سنتا ہوں “بولتے جو چند ہیں سب شرپسند ہیںٗٗ۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے اس پر ریمارکس دئیے کہ یہ بات میں نہیں کہوں گا۔ عدالت نے ایس پی کمپلینٹ سیل اور ایس ایچ او تھانہ رمنا کو جواب جمع کرانے کے لیے 11 مارچ کی حتمی تاریخ دے دی۔
Comments are closed.