اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے منظور

52 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے منظور، الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کی اپیلیں قابل سماعت ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

بلدیاتی انتخابات فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کی اپیلوں کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ اپیلوں میں سنگل بینچ کا 31 دسمبر کو اسلام آباد بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ چیلنج کیا گیا تھا۔

دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے وکیل نے موٴقف اختیار کیا کہ اس عدالت کے فیصلے کو سنگل بینچ نے مد نظر نہیں رکھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جب الیکشن کمیشن کو یہ معاملہ بھیجا گیا تو کیا ہوا ؟۔

وکیل نے جواب دیا کہ 27 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کے الیکشن ملتوی کرنے کا حکم دیا۔ 28 دسمبر کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ 28 دسمبر کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ڈی جی لا نے عدالت کو بتایا کہ 28 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ ہم انتخابات ملتوی کر چکے۔ 28 دسمبر کا الیکشن کمیشن کا آرڈر 27 دسمبر کے آرڈر پر منحصر تھا۔ وکیل میاں عبدالروٴف کے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنے آرڈر میں جو وجوہات بتائیں، اسے سنگل بینچ نے دیکھا ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی قانون بنا ہی نہیں ؟۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ دونوں ایوانوں سے بل منظور ہو چکا تھا۔ ممکنات تھیں کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات میں کس قانون کے تحت ہوں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 19 دسمبر کا نوٹیفکیشن چیلنج نہیں کیا گیا، اب والی پٹیشن میں بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پٹیشن میں 19 دسمبر کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا گیا ہے۔ جو آئینی سوالات اس میں شامل ہیں، اس طرف نہ وہ آرہے ہیں،نہ آپ آ رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ آپ دونوں اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ کوئی ایک چیز بھی عدالت کے سامنے نہیں لائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسی لیے کہہ رہا ہوں تیار کر لیں، کل پرسوں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس میں ڈویڑن بینچ نے آبزرو کیا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایات نہیں دے سکتے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی تھی۔ ڈویڑن بینچ نے وہ حکم کالعدم قرار دے کر کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایات نہیں دی جا سکتیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ حقائق ہیں جن کو سنگل بینچ نے مدنظر نہیں رکھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو ہدایت دے سکتے ہیں؟۔اگر عدالت صرف الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیتی تو کیا ہوتا ؟۔

ڈی جی لا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن آزادانہ اپنا فیصلہ کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا ابھی انتخابات کی تاریخ گزر گئی تو کیا آپ نے اب صرف پولنگ ڈے کا اعلان کرنا ہے۔ جس طرح بتایا گیا کہ صدر نے بغیر دستخط وہ بل واپس بھیج دیا تو کیا قانون یہی رہے گا ؟۔

عدالت نے کہا کہ 125 یونین کونسلز کا قانون بن جاتا ہے تو کتنے دن چاہیے ہوں گے؟۔ ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ چار پانچ دن ہمیں چاہیے ہوں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی بھی وجہ سے الیکشن ملتوی ہو جائیں تو دوبارہ کرانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟، جس پر ڈی جی لا نے بتایا کہ اس صورت میں پولنگ کی نئی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کی صورت میں کتنے دن چاہییں؟۔ جس پر ڈی جی لا نے بتایا کہ پھر ہم 120 دنوں میں الیکشن کرا سکتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ووٹرز لسٹوں کے نقائص اور غلطیاں بھی دور کرنی ہیں۔ اگر یہ حلقہ بندیاں کریں گے تو تمام مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایک چیز تو سنگل بینچ نے ٹھیک لکھی ہے، جس وجہ سے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا تھا وہ انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سنگل بینچ کا فیصلہ معطل قرار دیا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پریکٹیکل اور مناسب بات بتائیں کہ 101 یونین کونسلز میں آپ الیکشن کرا سکتے ہیں؟۔ڈی جی لا نے جواب دیا ہم اس حوالے سے ہدایات لے کر ہی عدالت کو بتا سکتے ہیں۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کی وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروانے کے حکم کے خلاف اپیلیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر کے سنایا۔

Comments are closed.