حسیب حمزہ کی گمشدگی سنجیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے، تحقیقات ہونی چاہئیں ،اسلام آباد ہائی کورٹ

45 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر بازیاب ہونے والے لاپتہ شہری کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو کیس کی تفتیش اپنی نگرانی میں کرنی کا حکم دیتے ہوئے 10 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ شہری حسیب حمزہ کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔ حسیب حمزہ عدالتی حکم پر بازیابی کے بعد عدالت میں پیش ہوئے۔ پٹیشنر ذوالفقار علی نے عدالت کو بتایا کہ میرا بیٹا واپس آ گیا ہے، اس کی کال آئی تھی کہ اسپتال کے پاس کھڑا ہے۔

چیف جسٹس نے حسیب حمزہ سے استفسار کیا کہ آپ کدھر گئے تھے؟ حسیب حمزہ نے بتایا مجھے معلوم نہیں، میری آنکھوں پر پٹی بندی ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے پولیس حکام کو مخاطب کر کے کہا آپ نے اب تک کیا تفتیش کی؟ آپ نے تو بروقت ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔ حبس بے جا کی درخواست ہے، یہ اب واپس آ گئے ہیں لیکن آپ نے تفتیش میں کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔ پولیس کو مغوی کے والد کی درخواست پر فوری ایکشن لینا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا جو عدالتی فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ عدالت آئین اور قانون کے علاوہ تو کچھ نہیں کر سکتی۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا آئی جی اسلام آباد کو ہدایات دی ہیں کہ کوئی پولیس کے پاس جائے تو فوری کارروائی ہونی چاہئے۔ عدالت نے کہا اس کو کس نے اٹھایا تھا؟ اس کی تحقیقات کون کرے گا؟۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا اگر یہ کسی کی شناخت کرے کہ اسے کس نے اٹھایا تھا؟ چیف جسٹس نے کہا اس کو ایسا نہ کہیں۔ حسیب حمزہ کے والد نے کہا میرا مسئلہ بیٹے کا اغوا ہونا تھا، وہ واپس آ گیا، میں مطمئن ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ مطمئن کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ کی درخواست پر تو پولیس کارروائی ہی نہیں کر رہی تھی۔ عدالت نے کہا 10 روز میں نوجوان کے لاپتہ ہونے کی تفتیش آئی جی پولیس اپنی نگرانی میں کرائیں اور رجسٹرار آفس کے پاس رپورٹ جمع کرائیں۔ نوجوان کو لاپتہ کرنے والے اور غفلت برتنے والے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے یہ کیس عدالت میں آنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ یہ 23 اگست کو پولیس کے پاس گئے مگر مقدمہ درج نہیں ہوا۔ پولیس کو مقدمہ درج کر کے قانون کے مطابق کارروائی شروع کرنی چاہئے تھی۔ عدالت میں معاملہ آنے کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا حسیب حمزہ کی گمشدگی سنجیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے۔ تحقیقات ہونی چائییں شہری کو کس نے اغوا کیا تھا۔ عدالت نے کہا توقع ہے کہ ماضی کے کیسز کے برعکس اتھارٹیز اپنا آئینی فریضہ نبھائیں گے۔

Comments are closed.