رولنگ کیس، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، چیف جسٹس

8 / 100

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں کہاہے کہ اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔

سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویزالٰہی کی درخواست پرسماعت جاری ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کی سماعت کررہاہے
کیس کی سماعت کے دوران دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے اور فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نہیں بتایا گیا کس قانون کے تحت فل کورٹ بنچ بنائیں، صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا معاملہ ہے فیصلے میں تاخیر نہیں کرسکتے۔

سماعت کے آغاز پر عرفان قادر نے کیس کی کارروائی کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کردیا۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دئیے گئے.

ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر ڈپٹی اسپیکر پنجاب کے وکیل عرفان قادر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنا، ہم نے ان سے درخواست کی کہ آپ کے خلاف سب نے آواز بلند کی ہے.

کہا ہمارا آئینی حق ہے فل کورٹ نہ بنانے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کریں گے، نظر ثانی کی اپیل اگر مسترد ہوئی تو پھر فل کورٹ کے سامنے درخواست لگے گی، مجھے امید ہے کہ وہاں مسترد نہیں ہوگی۔

عرفان قادر نے کہا کہ میں بھی جج رہا ہوں اگر کسی کو اعتراض ہوتا تھا تو میں بینچ چھوڑ دیتا تھا، یہ مسلمہ قانون ہے کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو بیں چ تبدیل ہو جاتا ہے، اگر آپ کا کیس ایسے جج کے سامنے ہو جہاں لاکھوں لوگ اعتراض کر رہے ہوں تو ہٹ جانا چاہیے۔

Comments are closed.