محمد علی سدپارہ کی لاش کھائی سے نکال کر محفوظ کرلی گئی
سکردو(محمد افضل)تقریباً 5 ماہ بعد کے ٹو پر لاپتہ ہو جانے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی لاش کو کھائی سے نکال لیا گیا، بیٹے ساجد سدپارہ کا کہنا ہے کہ والد کی میت کو کیمپ فور تک لاکر محفوظ کردیا ہے.
محمد علی سدپارہ کے صاحبزادے ساجد سدپارہ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ قومی ہیرو کے جسدِ خاکی کو بیس کیمپ تک لانے کے لیے حکومت تعاون کرے.
انھوں نے کہا کہ میت کو نیچے اتارنے کے لیے 10 سے زائد افراد کی ضرورت ہے، حکومت تعاون کرے تو ریسکیو کے لیے کے ٹو پر موجود مقامی کوہ پیماوں اور نیپالی شرپاز کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں.
ساجد سدپارہ کا کہنا ہے کہ ریسکیو مشن 10 اگست سے پہلے مکمل ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگست کے دوسرے ہفتے کے بعد شدید موسمی حالات میں کے ٹو پر ریسکیو آپریشن ممکن نہیں ہوگا.
انھوں نے بتایا کہ ریسکیو کے لیے کئی ملکی و غیر ملکی کوہ پیماوں سے بھی ماہرانہ رائے لی گئی ہے، والد کے جسدِ خاکی کو گھر لے جانے کے لیے پاک فوج سے بھی مدد کی درخواست ہے.
ساجد سدپارہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ قوم کی دعاوں اور حکومت کے تعاون سے مشن کی کامیابی کے لیے پر امید ہوں انشاءاللہ ہم جسد خاکی کو دس اگست سے پہلے منتقل کر دیں گے.
پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ فروری میں دو ساتھیوں سمیت کے ٹو پر لاپتہ ہو گئے تھے اور لاش کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ سے 300 میٹر نیچے تھی ان کے دو اور ساتھیوں میں سے ایک کی لاش ’بوٹل نیک‘ سے 400 میٹر نیچے ملی.
ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری کی لاشیں برف میں جمی ہوئی ہیں اور انھیں برف سے نکال کر سلنگ آپریشن کے ذریعے رسی سے اوپر کھینچنے میں لاش ٹوٹنے کا خطرہ بھی موجود ہے.
یاد رہے چلی سے تعلق رکھنے والے تیسرے کوہ پیما ہوان پابلو موہر کو ان کے اہلِ خانہ کی خواہش پر ساجد سد پارہ نے پہاڑوں کی آغوش میں ہی دفنا دیا۔
دو دن پہلے گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان کا کہنا تھا کہ ان لاشوں کو فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے منتقل کیا جائے گا تاہم قراقرم کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں ہیلی کاپٹر 7300 میٹر سے اوپر پرواز نہیں کر سکتے۔
Comments are closed.