جنرل ضیاء الحق بنام مریم و بلاول
سہیل وڑائچ
جرنیلی محلہ
عالمِ بالا
وارثانِ مستقبل پاکستان!
السلام علیکم! اما بعد آپ سے میرا کوئی نسبی یا سیاسی تعلق نہیں اس کے باوجود میں اس لئے آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں کہ حالیہ دنوں میں آپ نے نگوڑی جمہوریت کو جس طرح سے عریاں کیا ہے اس سے میرا اور میرے رفقائے کار کا دل خوش ہو گیا ہے۔ کیا ہوا؟ آپ جمہوری قافلے کے لوگ ہیں لیکن آپ کی لڑائی سے ہم بہت خوش ہو رہے ہیں۔
کل ہی عالمِ بالا میں صدارتی کیمپ کا اجلاس تھا، ایوب خان، یحییٰ خان، میں اور جنرل مشرف کے عالمِ بالا میں موجود ساتھی شریک تھے، ہم سب کا اتفاق تھا کہ بلاول اور مریم ہمارے آئیڈیلز کو پروموٹ کر رہے ہیں، آپ نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو جس طرح بتنگڑ بنایا ہے اس سے صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ جمہوری اتحاد کے چلنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں، اس ملک میں صدارتی نظام ہی کامیاب ہوگا اور ماضی میں بھی بہترین نظام ان جرنیلوں اور صدور کا رہا ہے جو جمہوریت کو ختم کرکے برسر اقتدار آئے تھے۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ کل میاں شریف، ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے گئے تھے، کلثوم نواز بھی ساتھ تھیں، ہو سکتا ہے کہ وہ بھی آپ کو خط لکھیں اور اپنے اختلافات ختم کرکے پی ڈی ایم کو مضبوط کرنے کی صلاح دیں مگر میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگر آپ دونوں نے وزارتِ عظمیٰ لینی ہے تو اتحاد توڑ کر ایک دوسرے کے مخالف خوب کھل کر بیانات دو۔ باری آپ دونوں میں سے کسی ایک کی آنی ہے، اتحاد رہا تو اقتدار کی منزل دور ہو جائے گی، اختلاف رہا تو کسی ایک کو اقتدار جلدی ملنے کا امکان زیادہ ہے۔
میرے آپ کو خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے آپس کی لڑائی سے عرصہ کے بعد ہمیں خوشی سے نہال کردیا ہے۔ وگرنہ عالمِ بالا میں وزیراعظم کلب کے لوگ جب سے پی ڈی ایم بنی تھی، آتے جاتے شاہراہوں پر ہمیں آمریت کے طعنے دیتے تھے، جب پی ڈی ایم کے جلسے زوروں پر تھے تو ہمارا گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا تھا کیونکہ جمہوری قافلے کے حمایتی گھیرا ڈال کر ہمارے خلاف نعرے لگاتے تھے، شکر ہے کہ جس دن سے پی ڈی ایم میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں ہمیں ریلیف مل گیا ہے۔ کل ہی صدارتی نظام کے حامیوں نے یہاں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں پی ڈی ایم کے انتشار پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور یہ بھی توقع کی گئی کہ جمہوری جماعتیں جلد ہی تتر بتر ہو جائیں گی اور ملک میں پھر سے صدارتی نظام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ عمران کو دوسری باری نہیں ملنی، اب اقتدار وزیر اعظم نہیں، نئےصدر کو ملے گا۔
ڈیئر مریم و بلاول!
ام ام میں سچ کہوں، شروع میں تو آپ دونوں نے ہمیں ڈرا ہی دیا تھا، جب آپ لوگوں نے اتحاد بنایا تو ہمارے صدارتی کیمپ میں سوگواری چھا گئی تھی، جوں جوں آپ اسمبلیوں سے استعفے دینے اور لانگ مارچ کی بات کرتے ہم گھبرا جاتے کہ کہیں واقعی پاکستان میں اصلی جمہوریت نہ آ جائے۔ یہ تو شکر ہے کہ بالآخر اختلافات نے ہماری مشکل آسان کردی اور اب صاف لگ رہا ہے کہ فتح جمہوری کیمپ کی نہیں صدارتی کیمپ کی ہوگی۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ شروع ہی سے خطرناک رہا ہے جو بھی وزیراعظم بنتا ہے اسے جمہوریت کا درد اٹھتا ہے اور وہ آمرانہ قوتوں کے خلاف صف آرا ہو جاتا ہے، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید نہ ہوتے تو ان کے بھی گورنر جنرل سے اختلافات ہو جانا تھے، وزیراعظم فیروز خان نون کو تو بالآخر پہلے صدر پاکستان اسکندر مرزا نے رخصت کردیا اور یوں ایوب خان کے پہلے مارشل لا کی راہ ہموار ہو گئی، ایوب خان نے ملک میں صدارتی نظام کی نیو رکھی اور بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے ذریعے ایک نیا نظام متعارف کروایا مگر جمہوری قوتوں نے ایوب خان کی ایک نہ چلنے دی، صدارتی نظام کو لائل پور کا گھنٹہ گھر قرار دے دیا اور بالآخر گول میز کانفرنس میں خود ایوب خان سے دوبارہ پارلیمانی نظام لانے کا اقرار کروا لیا۔
پھر صدر یحییٰ خان نے 1970کے الیکشن کروائے، سانحہ مشرقی پاکستان سے گزرے، وزیراعظم بھٹو آئے تو پھر جمہوریت کا غلغلہ ہوا، یہ تو اچھا ہوا کہ جمہوری قوتیں آپس میں لڑ پڑیں ورنہ 1973کے متفقہ آئین کے بعد ملک میں پائیدار جمہوریت قائم ہونے کے امکانات تھے۔ کچھ کام ہم نے دکھایا اور کچھ بیرونی دوستوں نے، چنانچہ 1977میں ہم نے مار شل لا کے ذریعے جمہوری حکومت کا کام تمام کردیا اور یوں پھر سے طاقتور صدر کا دور شروع ہوا۔ ملک کی معیشت ٹھیک ہوگئی، امریکہ نے ٹرک بھر کر ڈالر دیے، افغانستان کی وجہ سے ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر ضرور آیا، جمہوری لوگوں کو دبانے کے لئے کوڑے اور پھانسیوں کا حربہ استعمال کیا گیا اور یوں میں 11سال تک بلاشرکت غیرے پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔
آپ کے سیاسی وارثوں نے میرے متعلق آپ کو بہت سی غلط اطلاعات دے رکھی ہیں، مجھے علم ہے کہ آپ مجھے آمر، ظالم اور غیرجمہوری سمجھتے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ میں ہی اصلی جمہوری ہوں، ٹھیک ہے مجھ سے غلطیاں ہوئیں لیکن میں نے ڈنڈے کے زور پر ملک کو سیدھا رکھا، میرے زمانے میں کوئی چوں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس ملک کو صرف ڈنڈاہی چلا سکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ میرا دور کبھی ختم نہیں ہونا تھا میری گرفت بڑی مضبوط تھی مگر خدا کو جو منظور ہو وہ ہو کر رہتا ہے، میرا طیارہ ہوا میں ’’پھٹ‘‘ گیا اور یوں میرے دور کا خاتمہ ہوا۔ بعد ازاں دس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ جنرل مشرف کو پھر پارلیمانی جمہوریت کے خاتمے کیلئے مارشل لا لگانا پڑا۔ جنرل مشرف کا صدارتی دور بھی بڑا تگڑا تھا، بس جنرل مشرف نے ایک غلطی کردی کہ میڈیا کو آزاد رکھا، میں نے کبھی یہ تکلف نہیں کیا تھا، میرے زمانے میں تو بھٹو کی تصویر بھی شائع نہیں ہو سکتی تھی، ہر چیز سنسر ہوتی تھی، جنرل مشرف کو میڈیا کی آزادی لے بیٹھی، آزاد میڈیا نے آزاد عدلیہ کے حق میں آواز اٹھائی اور یوں جنرل مشرف کمزور سے کمزور ہوتے گئے اور بالآخر محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت نے مشرف کے اقتدار کے کفن میں آخری کیل ٹھونک دی۔
کہانی لمبی ہو گئی ہے لیکن آپ کو اپنا موقف سنانا ضروری ہے۔ مشرف کے بعد سے دوبارہ پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے، آصف زرداری اور گیلانی آئے انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے سے صدارتی نظام کے حامیوں کی خواہشوں کو نقصان پہنچایا، صوبوں کو مزید حقوق دیے جو غلط تھا، نواز شریف آئے تو وہ بھی تلوار لے کر اصلی جمہوری نظام کی بحالی کے لئے نکل پڑے، اس ملک میں اصل حکومت صدر اور وہ بھی اگر جرنیل ہو تو اسی کی ہوتی ہے، سیاستدانوں کو اصلی حکومت کون دیتا ہے؟اگر صدر جرنیل نہ ہو تو صدر علوی جیسا بے اختیار ہی ہوتا ہے۔
ڈیئر مریم اور بلاول!
مجھے علم ہے کہ آپ کے ارد گرد لوگ اس خط کے کئی غلط مطلب نکالیں گے، کئی ایک کہیں گے کہ ضیاء اوپر جاکر بھی جمہوریت کے خلاف منصوبے بنانے سے باز نہیں آ رہا لیکن میں نے یہ خط مخلصانہ طور پر لکھا ہے تاکہ آپ اتحادوں کے چکر میں پڑ کر اقتدار سے دور نہ ہو جائیں، ڈیل یا ڈھیل جس کا بھی موقع ملے اس سے فائدہ اٹھائیں، اصولی سیاست چھوڑیں، وصولی سیاست ہی حقیقت ہے۔ آئیڈیلز کا دور گزر گیا، بھٹو اور نواز شریف کو اصولوں کی سیاست سے کیا ملا جو آپ کو مل جائے گا؟ میری آپ سے گزارش ہے کہ یونہی لڑتے رہیں، ڈیل کرتے رہیں، یقین کریں آپ کا داؤ لگ جانا ہے بس دونوں طاقتوروں سے بات چیت کرتے رہو ، راستہ نکل آئے گا۔
والسلام جنرل محمد ضیاء الحق
( بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.