عمران خان کی بموں سے کھیلنے کی عادت
شمشاد مانگٹ
پاکستان کے عوام کو اب کم ہی کوئی ”خوشخبری“ ملتی ہے۔ سال میں دو عیدیں خوشی دے جاتی ہیں اور ان میں سے بھی ایک عید پر پاکستان اور پوپلزئی گروپ کے درمیان عید کے چاند کا مقابلہ ہو جاتا ہے اور پوپلزئی بازی مار کر دوعیدوں میں خوشیاں تقسیم کر دیتا ہے۔
اس کے علاوہ پورا سال بیچاری عوام پر مہنگائی کا بم، بد امنی کا بم، ظلم اور نا انصافی کا بم، پانی کی قلت کا بم، صاف پانی کی عدم فراہمی کا بم، کرپشن کا بم غرضیکہ ہر طرح کی کارپٹ ”بمباری“ جاری رہتی ہے ۔ پاکستان کے معروضی حالات کے حوالے سے شاعر نے کہا تھا کہ
”جہاں بھونچال بنیادِ فصیل ودر میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں“
تازہ ترین حالات کو سامنے رکھ کر اگر شاعر یہ مصرعہ لکھتا تو عین ممکن ہے یہ اس طرح ہوتا
”جہاں ”دھماکے“ بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم بموں کے گھر میں رہتے ہیں“
رواں ہفتے سپریم کورٹ سے پاکستان کا ایک ”بم“ پکڑا گیا ہے۔ جس طرح پاکستان میں میزائلوں کے مختلف نام ہیں اسی طرح اب بم بھی ناموں کے ساتھ سامنے آنے لگے ہیں۔ اس بم کا نام”منشا بم“ بتایا جا رہا ہے اس بم کی خوبیاں یہ بتائی جا رہی ہیں کہ یہ گلی محلوں خصوصاً لاہور کے علاقوں میں گھس کر تباہی مچاتا تھا۔
”منشا بم“ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہے اور اس سے پہلے تقریباً تمام سیاسی حکومتیں اس ”بم“ سے استفادہ کرتی رہی ہیں لیکن اس بار یہ ” بم“ عمران خان کی بغل سے برآمد کر لیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان سکیورٹی لینے سے مسلسل انکار کرتے رہے اور ”بغل“ میں ”بم“ کا انہیں احساس بھی نہیں ہو سکا۔
قومی اسمبلی میں سید خورشید نے چند روز پہلے تقریر کرتے ہوئے زور دیکر کہا تھا کہ عمران خان سکیورٹی نہ بھی لیں پھر بھی انہیں سکیورٹی دی جائے کیونکہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں ۔ اس کے باوجود عمران خان بے پرواہ ہو کر کام کرتے رہے۔ اور ”بم“ بھی ساتھ لئے پھرتے رہے۔
اللہ بھلا کرے محترم چیف جسٹس آف پاکستان کا جو نگر نگر عدالت لگا کر لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں اور لاہور میں دورانِ ”انصاف فراہمی“ انکے ریڈار میں منشا بم بھی آ گیا اور پھر منشا بم کی تباہ کاریاں بھی سامنے آئیں۔ عدالت کو معلوم ہوا کہ منشا بم قیمتی زمینیں ”حسب منشا“ خرید کر مہنگے داموں فروخت کرتا تھا اور اس طرح مالدار آدمی بن گیا۔
منشا بم کے متاثرین بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں جو کہ پہلے ڈرتے ہوئے اس کے پاس سے بھی نہیں گزرتے تھے کہ کہیں یہ ”چل“ نہ جائے کیونکہ منشا بم جب بھی ”چلا “اور جہاں بھی” چلا“ اس نے غریبوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔”منشا بم“ کی ایک خامی یہ تھی کہ وہ ”لوکل میڈ“ بھی ہے اور ”سیلف میڈ “بھی ہے اسی لئے اس ”دیسی ساختہ بم“ نے سپریم کورٹ پہنچ کر سرنڈر کر دیا اور اب پولیس کی حراست میں ہے۔
منشا بم پاکستان کی تاریخ میں پہلا ”بم“ ہے جسے حراست میں لیکر پولیس نے ”مال مقدمہ“ کے طور پر اپنے پاس نہیں رکھا بلکہ جسمانی ریمانڈ لیکر رکھا گیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ دیسی ساختہ پہلا بم ہے جسکا جسمانی ریمانڈ لیا گیا ہے۔
منشا بم کی ”ولائتی“ شکل ”میاں منشاء“ ہے۔ میاں منشا پاکستان کی تاریخ کا ایسا ”ولائتی بم“ جو بے پناہ مالی تباہ کاریوں کے باوجود آج تک نہیں پکڑا گیا۔ میاں منشا کی ”بہترین خوبی “ یہ ہے کہ وہ ہر حکومت کا منظور نظر بن جاتا ہے کچھ حکومتوں کا منظور نظر بن کر یہ ”بم“ مالیاتی اداروں اور فیکٹریوں میں تباہی مچاتا ہے اور پھر بعد ازاں آنیوالی حکومت کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر قانون کی نظر سے چھپ جاتا ہے۔
منشا بم مقامی طور پر بنایا گیا تھا اس لئے پکڑا گیا لیکن میاں منشا”بم“ کی تیاری میں کئی غیر ملکی دماغ بھی شامل رہے ہیں اس لئے مقامی پولیس یا کوئی دوسرا ادارہ آج تک اس خوفناک معاشی ”کلسٹر بم“ کو چھو بھی نہیں سکا۔
پاکستان کے ہر سرکاری ادارے کا اپنا اپنا”بم“ ہے۔ حتیٰ کہ اب تو ہر گلی اور محلے کا بھی اپنا اپنا ”بم“ مارکیٹ میں آ گیا ہے ۔ پاکستان اب دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے جسکی گلیوں اور سڑکوں پر”بم“ بکثرت پائے جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ان تمام ”بموں“ کی شکل انسانوں جیسی ہے لیکن تباہی بارودی بم سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔
ہم نے ”منشا بم“ کو گرفتار کر کے ایک اور ریکارڈ بنا دیا ہے پہلے ہم نے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر کو امریکی خواہش پر ”ملزم“ بنا دیا تھا اور اب ہم نے ”بم “بھی پکڑ لیا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چاہیئے کہ فوری طور پر امریکہ کو آگاہ کریں کہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے بم کے خالق کو ملزم بنایا تھا ہم نے ”بم“ ملزم بنا لیا ہے لہذا ہمارے قرضے معاف کئے جائیں۔
ہماری قومی زبان میں عام طور پر ایسے با اثر افراد جو وقت کے ساتھ بے اثر ہو گئے انہیں چلے ہوئے کارتوس کہا جاتا ہے۔ شاید یہ جملہ اس وقت وجود میں آیا جب بم کا وجود نہیں تھا۔ اس لئے اب اس جملے میں بھی ترمیم کی اشد ضرورت ہے ۔ ماضی قریب میں جنرل (ر) پرویز مشرف، چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چوہدری، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور ملک غلام مصطفیٰ کھر وغیرہ بہت با اثر سمجھے جاتے تھے-
لیکن اب یہ تمام پاکستان کے چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ اتنے با اثر تھے کہ انہیں اقتدار کا ”بم“ کہا جا سکتا تھا او راب انہیں چلے ہوئے بم بھی کہا جا سکتا ہے۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے جب علامہ طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس چھوڑ کر کینیڈا سدھار گئے تھے تو اس وقت سیاسی حلقے کہہ رہے تھے کہ علامہ طاہر القادری اب چلا ہوا کارتوس ہے لیکن عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن ری اوپن ہو گیا ہے اور علامہ طاہر القادری اب چلے ہوئے کارتوس کی بجائے ایک بم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں-اور یہ بم شریف برادران کی سیاست کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ہو اور یا پھر عوام ہوں سب کو کسی نہ کسی بم کا سامنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام”بموں “ کے گھر میں زندگی گزار رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی تو ”بموں“ سے کھیلنے کی بری عادت بھی سامنے آ گئی ہے۔ حلف اٹھانے کے چند دن بعد انہوں نے میاں عاطف نامی قادیانی کو اپنا معاشی مشیر بنا کر اپنے لئے ایک”بم“ تیار کر لیا تھا لیکن پھر فیصلہ واپس لیکر اس ”بم“ کو غیر مؤثر بھی کر دیا گیا اور ابھی دو روز پہلے وزیراعظم نے انگلینڈ کے سزا یافتہ فراڈیئے صاحبزادہ عامر جہانگیر چیکو کو اپنا سرمایہ کاری کا مشیر مقرر کر کے ایک اور بم راستے میں رکھ لیا تھا – 149
اور اپوزیشن میڈیا سے مل کر ابھی اس بم کی پِن کھچنے والی تھی کہ عمران خان حسب عادت اس سے پیچھے ہٹ گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی ، بد امنی، کرپشن، ظلم و نا انصافی سمیت اور گلی گلی پھیلے ہوئے ”منشا بموں“ سے محفوظ بنائے نہ کہ خود ہی بموں سے کھیلنا شروع کر دے۔
Comments are closed.