آزاد میڈیا اور دفاعی تجزیہ کار
ظفر عمران
ناظرین! ہم آپ کو بریکنگ نیوز دیتے چلیں کہ ثانیہ مرزا اور شعیب ملک نے اپنی الماری میں ایک خانے کا اضافہ کردیا۔ قوم کو مبارک ہو، شعیب ملک اُمید سے ہیں، کہ اُن کے گھر اک نیا مہمان آنے والا ہے۔ اس خوشی کی خبر پہ تبصرہ کرنے کے لیے ہم نے دعوت دی ہے، معروف دفاعی تجزیہ کار جناب رِٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی سر، آپ بتائیے، ثانیہ مرزا اور شعیب ملک نے الماری میں ایک خانے کا اضافہ کیوں کیا“؟
دفاعی تجزیہ کار: ”دیکھیے میں آپ کو بتاوں یہ بڑی سنجیدہ بات ہے؛ اس وقت نواز شریف پر جو مقدمات چل رہے ہیں، اُن سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ خبر چلائی گئی ہے۔ عوام نے اس قیادت کو رِجیکٹ کردیا ہے، اب انھیں کوئی اور صورت دیکھنا ہوگی۔ عام ان چہروں کو دیکھ دیکھ کر اکتاچکے ہیں۔ عوام کو متبادل قیادت کے لیے سوچنا ہوگا“۔
ناظرین! کراچی میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے؛ وزیر اعلا سندھ نے کہا ہے، کہ یہ سندھ کے خلاف سازش ہے۔ آئیے! دفاعی تجزیہ کار سے پوچھتے ہیں کہ کراچی میں بجلی کی قلت کی آخر کیا وجوہات ہیں۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں، معروف دفاعی تجزیہ کار جناب رِٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ جی رِٹائرڈ صاحب، آپ کا کیا خیال ہے، کیوں اچانک سے بجلی کی کمی ہوگئی، اور آخر اتنی بجلی گئی کہاں“؟
دفاعی تجزیہ کار: ”دیکھیے مونا! یہ سب پیپلز پارٹی کی ناکامی کی داستان ہے۔ کہتے ہیں، بھٹو زندہ ہے۔ کہاں ہے زندہ؟ بھٹو زندہ ہوتا، تو سندھ کی حالت دیکھ کر رو پڑتا۔ جب میری اندرون سندھ ڈیوٹی تھی، تو میں نے کیا کیا دیکھا میں آپ کو بتا نہیں سکتا، کیوں کہ وہ سرکاری راز ہے، اور سرکاری راز سے پردہ اٹھانا مناسب نہیں۔ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں، لوگ اس بار بھٹو کے نام پر بے وقوف نہیں بنیں گے۔ عوام کو سوچنا ہوگا، وہ کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے“۔
ناظرین! خیبر پختون خوا میں تعلیم کے میدان میں وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کا دعوا پی ٹی آئی کی حکومت کرتی آئی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے حقائق جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے، جانے مانے دفاعی تجزیہ کار جناب رِٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔ سے۔ جی رِٹائرڈ صاحب، آپ کیا کہتے ہیں، اس بارے میں، اول تو پورے ملک میںَ خاص طور پہ اس رپورٹ کے حوالے سے کہ خیبر پختون خوا میں تعلیم کی حالت غٹر غوں ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے“؟
دفاعی تجزیہ کار: تعلیم ہی کیا میں تو کہتا ہوں، کون سا شعبہ ہے جہاں ترقی ہورہی ہے؟ ہر شعبہ ہی غٹر غوں ہے۔ اب چائنا ہی کی بات کرلیں، وہاں سیاست دانوں کو بحری جہاز میں سوار کر کے جہاز ڈبودیا گیا تھا۔ ہمارے یہاں بھی کچھ ایسا ہو جائے تو بہ تری کا امکان ہے، ورنہ تو بیڑا ہی غرق ہے، ہر شعبے کا۔ آخر پاکستان کو کون بچائے گا، یہ سوچنے کا سوال ہے اور اسی میں ساری ’قوم‘ کی بھلائی ہے، اور ان کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا“۔
ناظرین! بلوچستان کی محرومی دُور کرنے کے لیے اس بار سینیٹ کا چیئرمین بلوچستان سے منتخب کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم دفاعی تجزیہ کار سے پوچھتے ہیں کہ ایسے بلوچستان کی محرومی میں کچھ کمی ہوگی، یا محرومی اور بڑھ جائے گی“؟
دفاعی تجزیہ کار: ”بالکل کمی ہوگی۔ اقتدار پہ قبضہ جمانے والے ان خاندانوں نے بلوچستان کی محرومی دُور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پارٹی کو انھوں نے اپنی جاگیر بنایا ہوا ہے۔ بیٹی کو راہ سے ہٹاتے ہیں تو بیٹا آ جاتا ہے، باپ کو نا اہل کریں تو بیٹی آ جاتی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ ہمیں ایسی جمہوریت درکار ہے، جیسی سینیٹ کے انتخاب کے دوران دیکھنے میں آئی؛ ہر محب وطن سینیٹر نے پارٹی کے مفاد سے بالا تر ہو کر ’قومی مفاد‘ کا خیال رکھا۔ ’قوم‘ ان کی اس تابع فرمانی پر خوش ہے“۔
ناظرین! اوراب کھیل کے میدان سے ایک خبر۔ اگلے سال جون میں پاک بھارت کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں گی، اور ایسا ہوگا، ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران۔ آئیے! دفاعی تجزیہ کار رِٹائرڈ صاحب کا تجزیہ حاصل کرتے ہیں۔ جی محترم؛ آپ کیا کہتے ہیں، اتنی اہم خبر پر“؟
دفاعی تجزیہ کار: میں تو کہتا ہوں کوئی بھی میدان ہو، بھارت کو ناکوں چنے چبوادینا چاہیے۔ دیکھیے ناں! بھارت ہم سے ڈر کے اپنی ٹیم یہاں نہیں بھیجتا۔ اب کس کس میدان سے بھاگے گا! آخر کہیں تو سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ آپ دیکھیے گا، وہاں ہم ان کا کیا حشر کرتے ہیں“۔
ناظرین! موسم کا احوال جانیے۔ شمال سے آنے والے گہرے بادلوں نے ملک کے بالائی حصوں کے درجہ حرارت میں کچھ کمی کردی ہے۔ آئیے بادلوں کی اس غیرمتوقع آمد کے راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں، دفاعی تجزیہ کار رِٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ جی صاحب، کہیے“؟
دفاعی تجزیہ کار: دیکھیے موسم تو عاشقانہ ہوگیا ہے، لیکن اس میں ان قربانیوں کو مت بھولیں جو وطن کو یہاں تک لانے میں دی گئیں۔ آج موسم خوش گوار ہے، تو یہ ہمارے ساتھ قوم کی دعائیں ہیں“۔
ناظرین! آپ چلتے چلتے ایک خبر دیتے چلیں کہ اس وقت پاکستان میں صحافت آزادی کے بامِ عروج پر ہے۔ آپ کو یقین دلانے کے لیے ہمارے ساتھ لائن پر موجود ہیں، مشہور دفاعی تجزیہ کار رِٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جناب، ناظرین کو بتائیے کہ پاکستان میں آزاد صحافت کا کیسا سنہرا دور ہے، اور کیا ماضی سے اس کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے“؟
دفاعی تجزیہ کار: اس میں تو کوئی شک نہیں، کہ ہمارا میڈیا مکمل طور پہ آزاد ہے۔ ایسی آزادی تو پڑوسی ملک ہندُستان اور افغانستان میں بھی نہیں، نہ مقبوضہ کشمیر سے کوئی مثال لائی جاسکتی ہے۔ جس آزادی سے ہمارا میڈیا سیاست دانوں کی قلعی کھولتا ہے، شاید ہی کسی اور ملک سے مثال لائی جاسکے۔ ایسی آزادی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس معاملے میں پاکستان کا میڈیا اپنی مثال آپ ہے اور ہم اس عظیم مشن میں ’قوم‘ کی امنگوں کی ترجمانی کرنے پر اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں“۔
احوال: دیکھا یہ گیا ہے کہ خبر کوئی سی بھی ہو، موضوع کوئی ہو، نیوز چینل کے پروگرام اینکر اور نیوز کاسٹر اس خبر پہ دفاعی تجزیہ کار کی رائے ضرور لیتے ہیں۔ ”دفاعی امور“ پر ”دفاعی تجزیہ کار“ کی رائے تو بجا، دیگر امور جیسا کہ سیاسی صورت احوال ہو، اس پر دفاعی تجزیہ کار کا کیا مقصد، وہ کس ’محاذ‘ کے ’دفاع‘ پر رائے دینے آتے ہیں، میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔ مندرجہ بالا پیروڈی محض نیوز چینل کے کرتا دھرتاوں کے لیے ’توجہ دلاو نوٹس‘ سمجھیے۔
(بشکریہ ہم سب)
Comments are closed.