گھوڑوں کی طرح بکتے انسان
بچپن میں کہانی سنتے تھے علی بابا اور چالیس چور۔۔۔ شاید اس زمانے میں چالیس چور ہی بہت ہوتے ہوں گے لیکن اب تو جناب ہر طرف چور دکھائی دے رہے ہیں۔ ٰخیر الیکشن کا سیزن ہے۔ اس الیکشن کی برائی ہی یہ ہے کہ یہ چوروں کو ساتھ لاتا ہے۔
اب آپ پوچھیں گے الیکشن میں چوروں کا کیا کام۔۔ تو جناب یہ وہ چور ہیں جو آنکھوں سے سرمہ نکال لے جاتے ہیں ایسی مہارت کے ساتھ کہ دیکھنے والے کو معلوم بھی نہیں ہوتا ان کی آنکھ کا سرمہ چرا لیا گیا ہے۔
اب بھی نہیں سمجھے؟۔۔ چلئے سمجھاتے ہیں یہ چالیس چور پہلے صرف ایک علاقہ سے ہوتے تھے لیکن الحمد للہ اب تو ہمارے ہر صوبہ میں علی بابا بھی ملے گا اور اس کے چالیس چور بھی۔۔
ابھی صرف جنوبی پنجاب کے چالیس چوروں نے آنکھوں سے سرمہ کے ساتھ ساتھ وہ حیرت بھی چرائی ہے جو کبھی مستقبل میں دیدہ کو حیران کر سکتی تھی۔اس لیے انہوں نے وہ حیرت بھی پیشگی چرا لی ہے۔
کھیل پرانا ہے، جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں چالیس چور چھلانگ مار کے مدت پوری کرنے والی حکومت کی جھولی سے نکل جاتے ہیں اور پکے ہوئے پھل کی طرح اس جھولی میں گرتے ہیں جسے حکومت کے اعزاز کے ساتھ بھرنا مقصود ہوتا ہے۔
ان سب کو ایک جھولی سے دوسری جھولی میں ٹرانسفر ہونے کا اشارہ دینے والے علی بابا ہی ان سب کا اجتماعی سودا کرتے ہیں۔ پھر باقاعدہ خشوع و خضوع کے ساتھ یہ چالیس چور نئے بادشاہ کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔
اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر کچھ مشیر بنالیے جاتے ہیں تو چند وزارت کے منصب پہ فائز ہوتے ہیں۔ وزارت کو پانچ سال اچھی طرح نچوڑنے کے بعد جب حکومت جانے کا وقت آتا ہے تو اس کے دفاع کا فریضہ انجام دینے والے یہ سپاہی اچانک دشمن کے لشکر میں جا بیٹھتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب نواز شریف کا مشرف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ جلا وطنی سامنے آیا تو اس حوالہ سے احسن اقبال نے پریس کانفرنس کی، اس وقت یہ طے پایا تھا کہ نواز شریف وطن واپس آئیں گے۔
احسن اقبال سے پوچھا گیا کہ کیا پارٹی چھوڑ کے دوسری جماعتوں میں شامل ہونے والوں کو واپس لیا جائے گا تو انہوں نے کہا ہماری جماعت نے طے کیا ہے کسی بھی لوٹے کو واپس نہیں لیا جائے گا۔
تاہم پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد ایسی کوئی شرط نہیں عائد کی اور مشرف کے بہت سے ساتھیوں کو پی پی پی پی میں شامل کیا گیا ، نواز شریف کی حکومت بننے والی تھی تو کئی پنچھی بہت سے درختوں سے اڑ کے ن لیگ کی شاخوں پر آ بیٹھے۔
اس موقع پر احسن اقبال کے دعویٰ کے خلاف سارے پرانے لوٹے نئے پیندے کے ساتھ دھو دھلا کر شاہی محل میں پہنچا دیئے گئے۔ پھر ان سے بہت سا کام لیا گیا۔ تھوک کے چاٹنے والے ریاض پیرزادہ کے ساتھ ساتھ خسرو بختیار، شیخ وقاص اکرم، ریاض پیرزادہ، ماروی میمن، کشمالہ طارق، طارق عظیم سمیت بہت سے نامور لوٹائے کرام عقیدت و احترام سے پارٹی میں لائے گئے۔
بھابڑا بازار راولپنڈی کا آزمایا ہواایک لوٹا جس نے پرانا قلعہ کی بھٹی میں نئی قلعی بھی کروائی وہ ہزار کوششوں کے باوجود مسلم لیگ ن میں واپس نہیں آ سکا حالانکہ اس نے میاں برادران کو بہت یقین دلایا کہ وہ وفاداری کم از کم پانچ سال تک تو نبھائے گا مگر وہ نہیں مانے۔
چوہدری برادران تو ویسے ہی نہیں آ سکتے تھے۔بس پھر کیا تھا۔۔ بھابڑا بازار کے شیخ رشید نے اپنی پارٹی بنا لی،بڑے پیمانے پر اس جماعت کی رکنیت سازی ہوئی اور الحمد للہ بہت جلد اس پارٹی میں تانگہ کی سواریاں پوری ہو گئیں۔ جس کے بعد اوپر تلے شیخ رشید نے کئی الیکشن لڑے اور ہارے۔(ویسے اگر نواز شریف چوہدری برادران اور شیخ رشید کو بھی واپس لے لیتے تو شاید اب بھی شان سے حکومت کر رہے ہوتے)۔
اب شیخ رشید کو معلوم ہوا انہیں علی بابا بننے کی ضرورت ہے ، اس کے لیے انہوں نے پی ٹی آئی کی مدد حاصل کی۔ دونوں نے مل کر الیکشن لڑا اور اس کے بعد چالیس چور ڈھونڈنے کی مہم شروع ہو گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ شہری سندھ میں پی ایس پی کو جبکہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو علی بابا کا کردار سونپا گیا۔
خیبر پختونخوا میں علی بابا کا کردار عمران خان ادا کریں گے تو بلوچستان میں یہ کردار دیہی سندھ کے علی بابا کے ذریعہ ایک نئی جماعت کو سونپا جا رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے علی بابا کون ہوں گے یہ خوشخبری جلد ہی عوام کو سنائی جا سکتی ہے اور قوی امکان ہے کہ اس علی بابا کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہو۔
بہرحال ماحول تیار ہے اور جناب لطف اٹھانے کے لیے تیار رہیئے کیونکہ پہلے صرف چالیس چور تھے جبکہ اس مرتبہ چوروں کی تعداد ڈیڑھ سو تک پہنچ چکی ہے اس لیے کھیل کا مزا بہت آئے گا۔
کہنے والے کہتے ہیں ہر مرتبہ مختلف چوروں کو آزمانے کے بعد طے کیا گیا ہے کہ اتنے مشکل حالات بنائے جائیں کہ کوئی چور اپنے آپ کو نجات دہندہ نہ سمجھے اس لیے اسے کمزور کرنے کے دوسرے چوروں کو پہلے سے تیار کیا گیا ہے۔
کوشش ہو گی کوئی بھی چور بہت زیادہ طاقتور نہ ہو سکے اور جس کو جتنا کام سونپا جائے وہ اتنا ہی کام کرے۔جو اپنی سوچ کے مطابق کام کرنے کا سوچے گا اسے گھر بھیجے جانا کھیل کا بنیادی اصول رکھا گیا ہے۔ پہلے بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے کا کھیل ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ اس کھیل میں بازی بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے کردار بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
انور مسعود صاحب نے بہت پہلے کہا تھا جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں ۔۔ گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
یہاں صاحب اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں چونکہ گھوڑے کی ساکھ اچھی ہوتی ہے اس لیے اب ہارس ٹریڈنگ نہیں تھیف ٹریڈنگ یعنی چوروں کی ٹریڈنگ ہو رہی ہے، بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔۔
Comments are closed.