ٰسیاسی جھکڑ اور استثنی
عزیر احمد خان
ملک بھر میں اس وقت ایک سیاسی جھکڑ برپا ہورہا ہے،کوئی پنچھی کدھر جارہا ہے ،کوئی کدھر جارہا ہے ،جیسے ہی اڑان بھرتے ہیں ویسے ہی وہ الزامات بھی عائد کرنا شروع کردیتے ہیں یہ پروازیں کافی عرصے قبل ایم کیو ایم سے پی ایس پی میں شروع ہوئیں پھر پی ایس پی سے ایم کیو ایم میںکچھ لوگ گئے سلسلہ یونہی چلتا رہا ۔
جیسے جیسے انتخابات نزدیک آتے گئے ،پارٹیوں کے سربراہ یہ دعوے کرتے رہے کہ ہم سے پس پردہ بہت سی جماعتوںکے لوگ رابطے میں ہیںاور وہ جلد ہماری پارٹی میںشامل ہوجائیں گے۔کچھ تو حقیقت ثابت ہوئی اور کچھ قیاس آرائیاں تھیں ،اس وقت جو سب سے زیادہ نقصان دیکھنے میںسامنے آرہا ہے وہ ن لیگ کوبرداشت کرنا پڑرہا ہے ۔یوں تو ایک ،دو ،ایک ،دو اراکین ایک شاخ سے پرواز کرکے نئے گھونسلے میںجاکر بیٹھ جاتے تھے مگر گذشتہ روز آٹھ اراکین قومی وصوبائی اسمبلی نے مسلم لیگ ن سے پرواز بھری اور ایک نیا سیاسی اتحاد بنا لیا ہے ۔
دوسری جانب بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا ہے کہ ابھی ایک سیاسی زلزلہ پاکستان تحریک انصاف میں بھی آنے والا ہے ۔جیسے ہی ن لیگ کے پنچھیوں نے اڑان بھری تو ن لیگ کی جانب سے موقف سامنے آگیا کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے پارٹی صدارت میں نوازشریف کو ووٹ نہیں دیا تھا اور ان لوگوں کو آمدہ انتخابات میں بھی ووٹ نہیں دینا تھا۔ان خطرات کا تو ہم پہلے ہی اظہار کرتے چلے آرہے ہیں کہ ن لیگ کی پالیسیوں سے کچھ اراکین نالاں ہیں ۔
سب سے اہم رکن سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہیں جن کے ایک طویل عرصے سے پارٹی کے ساتھ حالات کچھ مثبت انداز میں دیکھنے میں نہیں آئے ،پھر پارٹی نے انہیں سائیڈ لائن بھی کردیا ۔اہم اجلاسوں میں بھی مدعو نہیں کیا گیا وہ اس شرکت کیلئے منتظر ہی رہے ۔پھر انہوں نے اعتراضات بھی کیے مگر شاید نوازشریف کو وہ پسند نہیں تھے یا ان کو نوازشریف پسند نہیں تھے ۔کیونکہ چوہدری نثار نے کہا کہ اگرن لیگ کو گھر کی پارٹی بنایا گیا تو وہ ن لیگ میں نہیں رہیں گے ۔
موقف ان کا بالکل درست تھا ہم نے بہت عرصے پہلے اس حوالے سے اپنے قارئین کرام کو آگاہی کرا دی تھی کہ چوہدری نثار علی خان پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کریں گے لیکن چونکہ سیاسی دنیا میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں ہوتی گذشتہ روز چوہدری نثار کے ترجمان کی جانب سے اس بات کی تردید آگئی وہ ن لیگ کو خیرآباد نہیںکہہ رہے لیکن ہم اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے ایک بڑی خبر سامنے آئے گی اور وہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی ہوگی۔
بہرحال یہ بات تو ادھر ادھر جانے کی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری پاکستان کی سیاست کا بھی کوئی قبلہ نہیں ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیںتو مفادات کے حامل پنچھی ادھر ادھر تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں جو کہ نہ ہی جمہوریت کیلئے اور نہ ہی حکومت کیلئے کوئی نیک شگون ہوتا ہے ۔سیاست کے بھی کچھ اصول ہونے چاہئیں اور ان پر ہی عمل کرکے انتخابات میں حصہ لیا جاسکتا ہے ۔
ہمارے یہاں تو کچھ نرالے ہی اصول ہیں کوئی کسی کو نہیں مانتا کوئی کسی کو نہیں مانتا ،کوئی بیرون ملک کے قوانین کو تسلیم کرتا ہے ۔عجیب ہی مخمصے کی سیاست ہے ،بھئی پہلے آپ لوگ اپنے ملک کے ایوان اورقوانین کو تسلیم کریں حالت یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی باہر جائے خصوصی طور پر امریکہ یا یورپ چاہے اس میں ہمارے ملک کے سربراہ ہی کیوں نہ شامل ہوں ان کی اس ایسی تضحیک آمیز تلاش لی جاتی ہے جس کے بارے میں انسان کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔
ہمارے ملک میں اگر ریمنڈ ڈیوس کوئی بندے مار دے تو اس کیلئے اوبامہ براہ راست آکر کہتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے یا کوئی اورامریکی اتاشی سگنل توڑ کر کسی موٹرسائیکل کو کچل ڈالے تو اسے سفارتی اسثنیٰ حاصل ہوجاتاہے ۔ہونا تو ایسا چاہیے کہ پاکستان امریکہ سے باقاعدہ مطالبہ کرے کہ اس امریکی سفارتکار کا استثنیٰ ختم کیا جائے اور اس کو ملکی قوانین کے تحت قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ یہ حادثہ نہیں بلکہ اس نے سگنل توڑ کر ایک پاکستانی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔
قتل ،قتل ہوتاہے اگر امریکہ اپنے آدمی کے قتل کے الزام میں پاکستان سے ایمل کانسی کو اٹھا کرلے جاسکتا ہے تو پھر ہم ریمنڈ ڈیوس یا امریکی کرنل جوزف کو کیوں چھوڑیں ہمارے اپنے قوانین ہیں ۔اگر بیرون ممالک جاتے ہوئے وہ لوگ اپنے قوانین پر عمل کراتے ہیں تو پاکستان کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں پر رہنے والے غیر ملکی پاکستانی قوانین پر عمل کریں اور اگر وہ عمل پیرا نہیں ہوتے تو اس پر انہیں عمل کرایا جائے تب ہی ہماری بیرونی دنیا میں عزت ہوگی ورنہ اسی طرح تضحیک ہوتی رہے گی ۔
Comments are closed.