اقتدار کے لیے سب کچھ کرے گا
آصف علی بھٹی
سیاست کو امکانات کا کھیل کہا جاتا ہے، لیکن اب سیاست انہونیوں کا کھیل بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات نے سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کی شرمناک روایت کو زندہ کیا لیکن آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ دانتوں میں انگلیاں دبائے تماشہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ اس جرم کی نشاندہی، روکنے یا پکڑنے میں سب بری طرح ناکام رہے۔ سیاسی بیوپاریوں نے نوٹوں کی چمک سے ووٹ کی کمر توڑ کر رکھ دی، ن لیگ بے نشاں اور بے اماں لڑ کر بھی اکثریتی جماعت بن گئی۔ ’’صادق امین‘‘ کے پیروکار اپنی بساط کے مطابق پنجاب میں چمک کے کرشمہ سے اور کے پی کے میں اپنے حلیفوں سے دغا بازی کر کے کامیاب ہوگئے۔
بلوچستان میں آزادی کی خواہش نے آزاد ارکان کو اکثریت بخشی، سندھ میں زر اور طاقت کے گٹھ جوڑ نے سیاست کے ساتھ مل کر سازش کی اور کامیابی بھی حاصل کی۔ ایوان بالا کے 52 ارکان کا انتخاب تو جیسے تیسے ہوگیا، برا یہ ہوا کہ کم تر درجے پر اپنی قیمت لگوانے والے اور ان کے خریدار سیاست کو بدنام کر گئے۔ نتیجتاً چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے واضح اور ممکنہ شفاف عمل کو نہ صرف مشکل بلکہ مشکوک بھی بنا دیا گیا۔ نیازی صاحب نے زرداری صاحب سے ہاتھ نہ ملانے کا ببانگ دہل اعلان کر رکھا تھا، لیکن حیران کن طور پر خان صاحب قدوسی دستانہ پہن کر دست بدستہ زرداری صاحب کے
گلے جالگے، خان صاحب بقول شاعر ’’مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘‘۔ اور زرداری صاحب تو پہلے اس میوے کا مزہ لے چکے ہیں لہٰذا فارمولا ایک ہی ہے کہ ’’اقتدار کے لئے سب کچھ کرے گا‘‘۔ ہارس ٹریڈنگ کے مکروہ دھندے کے حواری مجبور تو ہیں لیکن یہ بتا دیں کہ آج عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ ہوا تو پھر کل عام انتخابات کے نتائج اور مینڈیٹ کا احترام کون کرے گا؟ مینڈیٹ بلڈوز کرنے کی غلط روایت چل نکلی ہے تو پھر اس کو کسی بھی سطح پر روکنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا، خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے نئے پاکستان میں روایتی سیاست کا نیا بیج بویا ہے،
پہلے شیخ رشید کو کیا کچھ نہیں کہتے تھے پھراس کو سیاسی ساتھی بنالیا، اب زرداری صاحب سے پردوں کے پیچھے محبت کی پینگیں بڑھیں گی۔ پیپلزپارٹی کے پاس اپنے اور پرایوں کا پسندیدہ اور اعتماد یافتہ متفقہ امیدوار رضا ربانی موجود تھا جس کو خود پارٹی کے شریک چیئرمین نے مقابلے سے ہی نکال باہر کیا۔ جی ہاں وہ زرداری ہی کیا جو سب پر بھاری نہ ہو۔ بیٹا اور پوری جماعت ایک طرف اور زرداری کا فیصلہ ایک طرف، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ایک صفحے پر یک جان دو قالب ہوگئے، اسکرپٹ کے مطابق مشترکہ نظر انتخاب صادق سنجرانی ٹھہرے۔
اب اگر بلوچستان کی محرومیوں کے ذکر اور ازالے کے دعوئوں سے وہ 53 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ بن بھی گئے تو اس مینڈیٹ کو ہضم کون کرے گا جو دوسرے مینڈیٹ کی گردن کاٹ کر حاصل کیا جائے گا پھر جمہوریت کی چلتی نائو کو کنارہ بھی کبھی نہیں ملے گا۔ طاقت اور چمک کے استعمال کے نتائج ہمیشہ بھیانک ہوتے ہیں،33 ووٹ لینے والی جماعت اتحادیوں سے مل کر بھی اپنا چیئرمین لانے میں ناکام ہوئی تو پھر کیا جمہور کا جمہوریت سے اعتبار نہیں اٹھ جائے گا۔ تبھی شہباز شریف پھٹ پڑے ہیں کہ زرداری،نیازی گٹھ جوڑ عوام کو سمجھ آرہا ہے، وہ آئندہ انتخابات میں اس گٹھ جوڑ کو دفن کردیں گے۔
چھوٹے بھائی کی نظر اور خیال میں بڑا بھائی ان کی حکمت عملی پر تھوڑا سا عمل کرے تو بگڑے معاملات سنبھل ضرور سکتے ہیں لیکن بڑے میاں صاحب کے لئے شاید یہ دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ سینیٹ کے انتخاب کی باامر مجبوری اجازت دینے والے کچھ پریشان ضرور ہیں لیکن معاملات بدستور انہی کے ہاتھ میں ہیں وہ تمام تر کوششوں کے باوجود مرضی کی تبدیلی یا سیٹ اپ تو ابھی تک لانے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن عام انتخابات سے پہلے صفائی کا شور مچا کر کچھ وقت ہاتھ میں رکھا جاسکتا ہے کیونکہ تاخیر سے معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔
جوں جوں عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے سیاسی ماحول گرما گرمی کا شکار ہورہا ہے، بڑی سیاسی جماعتوں کی عوامی رابطہ مہم میں سوشل میڈیا کنونشن کا نیا آئٹم بھی شامل ہوچکا ہے، قائدین ایک دوسرے پر تابر توڑ، تضحیک آمیز جملوں سے ذاتی حملے اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے دھمکی آمیز دعوے بظاہر کررہے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ راتوں میں ملاقاتوں اور رابطوں میں ایک پیغام چھپا ہے کہ مقابلہ صرف ووٹوں کا نہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ن لیگ چیئرمین سینیٹ کے لئے اپنا یا اتحادیوں کا چیئرمین لے آئی تو میاں صاحب کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کی باقاعدہ اور فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہو جائے گا جو مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان ہوگی۔
زرداری صاحب نے ن لیگ سے ہاتھ ملا کر سیاست کو جمہوری اصول پرستی کی طرف موڑنے کی بجائے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا خواب دیکھا ہے جس کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں تاہم نوازشریف اور اس کی بیٹی کے واشگاف بیانیے اور عوامی اجتماعات نےاس راستے کو معدوم کررکھا ہے۔ زرداری صاحب نے اپنی جماعت کے بلامقابلہ امیدوار کو ازخود چت کر کے مفاہمت کی نئی قسم کا آغاز کیا ہے جس کا انجام دیوار پر لکھا ہے لیکن جو اپنوں کا نہیں وہ پرایوں کا کہاں بنے گا۔ لیکن زرداری صاحب اس نوشتہ دیوار کو ابھی پڑھنے سے قاصر ہیں۔
آئندہ انتخابات بروقت نہ ہونے کے بارے میں سوالات اٹھنے کی ایک بڑی وجہ احتساب کا متروک نعرہ بھی ہے جو ہر دور میں سیاست اور جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے پس اس پر اب بھی عمل ہو رہا ہے، ماضی گواہ ہے کہ طاقتوروں کے کڑے احتساب اور پکڑے گئے ’’ایمانداروں‘‘ کی لوٹی ہوئی دولت میں سے ایک پائی بھی قومی خزانے میں واپس نہیں لائی گئی۔
جمہوریت اور سیاسی اصول پرستی کے بدلتے رنگ اور اقتدار تک پہنچنے میں ناکامیوں کے تلخ حقائق معاشرے میں پھیلے عدم برداشت کے نظرئیے کو سیاست کا جزو بنا رہے ہیں۔ معاشرے کے اندر چھپے گند اور بدبو نے سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، منتخب نمائندوں پر سیاہی پھینکنے یا جوتے مارنے کا کلچر سیاسی ماحول کو ہی آلودہ نہیں کررہا بلکہ شدت پسندی، انتہاپسندی اور ذہنی پستی کے پنپتے کے بدترین عنصر کی نشاندہی بھی کررہا ہے، حالیہ واقعات اخلاقی تربیت میں کمی اور انسانی عظمت کو بے توقیر کرنے کے متشدد رویے کے عکاس تو ہیں لیکن ایسے واقعات پر سیاسی قیادت کا محض مذمت کرنا کافی نہیں ہے؟
جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ سابق امریکی صدر پر دورہ عراق کے دوران جوتا اچھالنے کے پہلے واقعہ کے بعد اس روایت کی سب سے زیادہ پاسداری پاکستان میں ہوئی۔ سابق صدر، سابق وزیراعظم، سابق وزیراعلیٰ اور وزراء پر جوتا پھینکنے کے واقعات ہوئے لیکن جوتا پھینکنے والے کو عظمت ملی نہ محرکین کو کبھی کوئی فائدہ پہنچا، ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ جوتے کھانے والے کی عزت، قدر ہمدردیوں میں اضافہ ہوا،
انتہائی نامساعد حالات جمہوری سوچ کے ساتھ ساتھ سیاسی بلوغت کے عملی مظاہرے کے متقاضی ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کو احترام انسانیت کا درس دینا ہوگا۔ ’’ذمہ دار‘‘ اور سیاسی جماعتوں کے قائدین بے ہودہ کلچر کے خلاف اب نہ اٹھ کھڑے ہوئے تو توہین آمیز اور سفاکانہ ردعمل سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔
(بشکریہ جنگ)
Comments are closed.