"خادم پنجاب کی" جبر کی شادی

پارلیمنٹ کے صدر دروازہ پر ایک نجی ٹی وی چینل کے نمائندے نے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیر پائو سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہونے پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ یہ ’’جبر‘‘ کی شادی ہے جو حالات نے کرائی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ’’بیانیہ اور خواہش‘‘ میاں نواز شریف ہی کی چلے گی۔ میاں شہباز شریف، میاں نواز شریف کی پالیسیوں کو آگے بڑھائیں گے‘‘ ’’خادم پنجاب‘‘ میاں شہباز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا صدر بنایا جانا کئی روز تک پارلیمنٹ کی راہداریوں میں موضوع گفتگو بنا رہا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کے انتخاب کے لئے مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے لئے جناح کنونشن سنٹر کا انتخاب کیا گیا جناح کنونشن سنٹر کی گیلریاں کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔ پرجوش کارکنوں کی زبردست نعرے بازی منتظمین کو اجلاس کی کارروائی چلانے میں حائل ہو رہی تھی حتیٰ کہ میاں نواز شریف کو مسلسل نعرے بازی سے اپنی تقریر جاری رکھنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ ایک دوبار تو انہوں نے نعرے بازی بند نہ ہونے پر تقریر نہ کرنے کی دھمکی دے دی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ میاں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کی تین بار کو ششیں ہو چکی ہیں۔

پہلی بار انہیں’’ مارشل لائی قانون‘‘ کی 58(2) بی سے ’’شکار‘‘ کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف ’’پرویزی مارشل لا ء میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جبکہ تیسری بار ایک ’’عدالتی فیصلے‘‘ کی زد میں آنے کی وجہ سے میاں نواز شریف کو ا قتدار سے محروم ہونا پڑا۔ یہ بات آن ریکارڈ ہے دونوں بار نااہل قرار دئیے جانے پر میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو ہی پارٹی کا صدر بنایا۔ مجھے یاد ہے پہلی بار جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے پی پی او 2002ء میں ترمیم کر کے سزا یافتہ شخص کے لئے پارٹی عہدہ ممنوع قرار دیا تو اس وقت ان کی نظر انتخاب بھی میاں شہباز شریف ہی تھے البتہ اب کی بار صورت حال یکسر مختلف تھی

جب میاں نواز شریف کو ’’نام نہاد پانامہ کیس‘‘ میں نااہل قرار دے کر ان کو دوسری بار پارٹی کی صدارت سے ہٹایا گیا ہے تو ان کے خالی قرار دیے جانے والاعہدہ پر 45روز کے اندر انتخاب قانونی تقاضا تھا۔ سو اس کو پورا کرنے کے جناح کنونش سنٹر میں پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کرانہیں دوبارہ صدر منتخب کر لیا گیا۔ دوبارہ پارٹی کا صدر بننے کی راہ میں جنرل پرویز مشرف کے دور کا ’’کالا قانون‘‘ حائل تھا جسے پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے رکاوٹ دور کر دی۔ کم و بیش 6ماہ تک میاں نواز شریف صدر مسلم لیگ(ن) بن کر ’’سیاسی و غیر سیاسی‘‘ مخالفین کی چھاتی پر مونگ دلتے رہے لیکن ان کے دوبارہ پارٹی صدر بننے کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایک بار پھر میاں نواز شریف کے’’سیاسی جانشین‘‘ کی تلاش شروع ہو گئی۔

پہلی بار مسلم لیگی حلقوں میں یہ سوال اٹھا کہ میاں نواز شریف کا ’’سیاسی جانشین‘‘ کون ہوگا؟ پارٹی کے اندر کسی لیڈر کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ کھل کر بات کرے، یہ جرات صرف چوہدری نثار علی خان کو ہوئی جنہوں نے کھل کر کہا کہ وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی قیادت میں تو کام کرنے لئے تیار ہیں لیکن مریم نواز جو ان کے بچوں کی جگہ ہے اسے اپنا لیڈر نہیں بنا سکتے۔ ان کے اس موقف پر پارٹی کے بعض حلقوں نے نکتہ چینی بھی کی لیکن ’’زمینی حقائق‘‘ کا تقاضا بھی یہ ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید عدالتی فیصلے میاں نواز شریف کو پابند سلاسل کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ایک مضبوط اعصاب کا مالک شخص ہی نواز شریف کا سیاسی جانشین ہو سکتا ہے۔

چوہدری نثار علی خان نے بارہا نجی محافل میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف کو میاں شہباز شریف جیسا بھائی نہیں ملے گا، وہ انتہائی تابعدار submissive ہے۔ میاں نواز شریف ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں انہوں نے تمام مشوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پارٹی کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر سیاسی فیصلہ کیا۔ کچھ عناصر نے مریم نواز کو اپنے چچا کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن مریم نواز نے عوام میں اپنی مقبولیت اور پذیرائی کو جواز بنا کر پارٹی کی قیادت پر اپنا کلیم نہیں کیا بلکہ اپنے والد محترم کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔

میاں نواز شریف نے مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف کو میاں شہباز شریف کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ذمہ داری سونپ کر اس تاثر کو تقویت دی کہ شریف خاندان متحد ہے۔ جب میاں نواز شریف عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے لودھراں گئے تو ان کے ہمراہ میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی تھے۔ اس اجتماع میں شریف خاندان کی اہم شخصیات کا اکٹھ دراصل ان قوتوں کے لئے پیغام تھا شریف خاندان منقسم نہیں متحد ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنی ’’نااہلی‘‘ کے بعد بقیہ مدت کے لئے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کیا تھا لیکن انہوں نے جلد ہی بو جوہ اپنے فیصلے پر رجوع کر لیا جس کے بعد مسلم لیگ(ن) میں کچھ عناصر نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ میاں نواز شریف میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنائیں گے اور نہ ہی پارٹی صدر۔

بیگم کلثوم نواز کو صدر بنانے کی تجویز سامنے آئی لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ کچھ عناصر کی خواہش تو ہو سکتی تھی لیکن میاں نواز شریف کا فیصلہ نہیں۔ انہوں نے تمام مشوروں کو بالائے رکھتے ہوئے پارٹی کے وسیع تر مفاد میں جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ میاں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر تو منتخب کر لیا گیا لیکن نعرے وزیر اعظم نواز شریف کے ہی لگ رہے تھے۔ مرکزی جنرل کونسل نے میاں نواز شریف کو پارٹی کا ’’تاحیات قائد‘‘ قرار دے کر ’’جبر‘‘ کی قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ میاں نواز شریف کو پارٹی کے عہدے سے تو ہٹایا جا سکتا ہے لیکن ان کا مسلم لیگ(ن) سے تعلق ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مسلم لیگی کارکنوں کے دلوں سے نکالا جا سکتا ہے۔

میاں نواز شریف ایک سیاسی حقیقت ہے جسے غیر سیاسی ہتھکنڈوں سے میدان سیاست سے باہر نہیں کیاجا سکتا۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں بھی میاں نواز شریف کو پی پی او2002ء کے تحت پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا تو اس وقت بھی میاں شہباز شریف ہی کو پارٹی کا صدر بنایا گیا لیکن پالیسیاں میاں نواز شریف کی چلتی رہیں گی میاں شہباز شریف نے اس وقت بھی کہا تھا کہ وہ پارٹی کے صدر تو ہیں لیکن ہمار ے اصل لیڈر میاں نواز شریف ہیں۔ انہوں نے پارٹی کا صدر منتخب ہونے کے بعد بھی جو تقریر کی اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’پارٹی کا کوئی رکن نواز شریف کی جگہ لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، نواز شریف کل بھی ہمارے قائد تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے،

یہ پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو نواز شریف جیسا قائد ملا۔ انہوں نے نواز شریف کو قائداعظم کا سیاسی وارث قرار دیا۔ قائد نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جس کا ازالہ ایک دن ضرور ہو گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’میں نے اپنی 30سالہ سیاسی زندگی میں ہمیشہ نواز شریف سے رہنمائی حاصل کی ہے‘‘۔ میاں شہباز شریف کا شمار پاکستان کے بہترین سیاسی منتظمین میں شمار ہوتا ہے۔ پنجاب کی گڈگورننس تمام صوبوں کے لئے آئیڈیل ہے وہ تیز رفتاری سے کام کرتے ہیں اور اپنے گرد بھی ایسے ہی افسران تعینات کرتے ہیں جو ان کے کام کرنے کی رفتار کا ساتھ دے سکیں۔

اب کا تو مجھے علم نہیں میاں شہباز شریف کے پچھلے ادوار میں پنجاب کا کوئی ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او اس وقت نہیں سوتا تھا جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ بھی سو گیا ہے۔ جب میاں نواز شریف نے ’’نااہلی‘‘ کے بعد میاں شہباز شریف کو بقیہ مدت کیلئے وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا تو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں بیوروکریسی میں ہلچل مچ گئی تھی۔ جب سے میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ(ن) کی صدارت سنبھالی ہے ان کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے،

وہ ’’ نیازی اور زرداری‘‘ پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف اور مریم نواز بڑے بڑے جلسے کر کے میدان سیاست میں عمران خان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ عمران خان اور شیخ رشید نے جو ہر سال کو انتخاب کا سال قرار دیا کرتے تھے اب 28 اپریل 2018ء سے اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میاں شہباز شریف کے صدر منتخب ہونے سے پارٹی میں ’’ریاستی اداروں‘‘ سے تصادم کی پالیسی کے حامی عناصر کو پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ میاں شہباز شریف ’’سول ملٹری تعلقات‘‘ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے وہ جہاں اپنے سیاسی مخالفین کے لئے ’’شمشیر برہنہ‘‘ ہیں وہاں وہ ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کار قائم کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

میاں شہباز شریف، میاں نواز شریف کی جگہ لینے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے لیکن انہیں حالات نے ’’جبر‘‘ کی شادی پر مجبور کیا ہے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کا ’’سیاسی بیانیہ‘‘ لے کر آگے چلیں گے۔ کسی پارٹی لیڈر کو ’’ریاستی اداروں‘‘ سے تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
(نواءے وقت)

Comments are closed.