فوٹو : اسکرین شاٹ
اسلام آباد : تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے رہنماؤں اسد قیصر، محمد زبیر عمر اور دیگر اپوزیشن شخصیات نے مشترکہ پریس کانفرنس میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسد قیصر نے کہا کہ حکومت معاشی پالیسی کے لحاظ سے مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پیسے نہیں رہے۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی کا اجلاس طویل عرصے بعد ہو رہا ہے مگر خیبرپختونخوا کو اس کا جائز حصہ نہیں مل رہا۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا کی ترقی کے لیے ایک ہزار ارب روپے کی سفارش کی تھی، فاٹا انضمام کے بعد صوبے کا شیئر 19 فیصد تک بڑھنا چاہیے تھا مگر تاحال اس پر عمل نہ ہوسکا۔
اسد قیصر نے مزید کہا کہ گیس کی رائلٹی کی مد میں بھی صوبائی حق روکا گیا ہے۔ غیر ملکیوں کو ایرپورٹ دینے سے صوبہ عالمی سیاست کی زد میں آگیا ہے۔ افغان جنگ اور دہشتگردی کے خلاف جنگ دونوں میں سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوا نے اٹھایا مگر صوبے کی ترقی اور عوامی ضروریات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع 2 ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہیں جہاں روزگار، تعلیم اور بنیادی سہولیات تک دسترس نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ قبائلیوں کے معاشی نظام اور تجارت کو سمگلنگ قرار دیا جا رہا ہے، اپوزیشن رہنماؤں کی پریس کانفرنس ۔
محمد زبیر عمر کی معاشی صورتحال پر شدید تنقید
اپوزیشن رہنما محمد زبیر عمر نے کہا کہ کئی عرصے سے معیشت کی تباہ حالی سے قوم کو آگاہ کرتے رہے ہیں مگر حکومتی دعووں اور بیانات کے برعکس اعداد و شمار تباہ کن صورتحال ظاہر کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ
پاکستان کی ایکسپورٹس بری طرح گر چکی ہیں
تجارتی خسارہ 37 فیصد بڑھ گیا ہے
گورنر اسٹیٹ بینک اور اعلیٰ حکام خود اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیوں پر فوری نظرثانی کرنا ہوگی
انہوں نے کہا کہ پرائیویٹائزیشن منسٹر بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ ملک کا گورننس سسٹم اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے کو تیار نہیں۔
محمد زبیر نے بتایا کہ تازہ ترین عالمی سروے میں پاکستان کی پوزیشن 109 ہے اور تقریباً ہر عالمی سروے میں پاکستان بالکل نیچے ہوتا ہے۔ بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی مشکلات اور بے عزتی بنیادی طور پر ملکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کے باعث بے روزگاری پچھلے 21 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
Comments are closed.