تاحیات استثنیٰ کا تصور کسی بھی مہذب ملک میں قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے، احمد بلال محبوب

57 / 100 SEO Score

فوٹو : فائل

اسلام آباد : آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے تاحیات استثنیٰ کا تصور کسی بھی مہذب ملک میں قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے، احمد بلال محبوب کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا ہے کہ استثنیٰ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص پر کسی فوجداری مقدمے کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

ان کے مطابق پاکستان کے آئین کے تحت صدرِ مملکت کو صرف اپنے عہدے کی مدت کے دوران استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، یعنی وہ صدر رہتے ہوئے نہ گرفتار کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ چل سکتا ہے۔

احمد بلال محبوب نے تاحیات استثنیٰ سے متعلق زیرِ گردش خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا تصور کسی بھی مہذب ملک میں قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔

ان کے بقول، “جب تک عہدے پر ہیں استثنیٰ سمجھ آتا ہے، لیکن اگر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی پر مقدمہ نہیں چل سکتا تو یہ قانون کے منافی ہوگا۔”

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں ہمیشہ صدور کو صرف دورانِ عہدہ استثنیٰ حاصل رہا ہے لیکن تاحیات یہ استثناء نہیں تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ استثنیٰ لینا کمزوری کی علامت ہے۔ان کے بقول، “اگر آپ کو کسی بات پر استثنیٰ چاہیے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کس جرم کے احساس سے بچنا چاہتے ہیں؟”

انہوں نے مزید کہا کہ صدارتی استثنیٰ کی اصل منطق یہ ہے کہ ایک صدر کو روزمرہ عدالتی کارروائیوں میں الجھانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

واضح رہے کہ مئی 2024 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ٹھٹھہ واٹر سپلائی اور پارک لین کیسز میں صدر آصف علی زرداری کو آئینی استثنیٰ دیا تھا۔

اس سے قبل 2012 میں سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تھا جب انہوں نے صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کیا تھا۔

Comments are closed.