اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے عرب ملک قطر کی آبادی صرف 31 لاکھ ہے
فوٹو : فائل
اسلام آباد : اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے عرب ملک قطر کی آبادی صرف 31 لاکھ ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی طاقت اس کی مستحکم معیشت ہے۔ گلف نیوز کے مطابق قطر کے 2025 کے بجٹ میں 197 ارب قطری ریال آمدنی اور 210.2 ارب ریال اخراجات شامل ہیں۔
جن میں سے 154 ارب ریال صرف تیل و گیس سے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ اگرچہ بجٹ میں 13.2 ارب ریال خسارہ ہے، تاہم یہ ملکی معیشت کے حجم کے مقابلے میں معمولی سمجھا جاتا ہے۔
قطری اخبار کے مطابق قطر کا سرمایہ کاری فنڈ کے اثاثے 500 ارب امریکی ڈالر سے زائد ہیں۔ یہی معاشی طاقت دوحہ کو خطے کے پیچیدہ تنازعات میں ثالثی کے قابل بناتی ہے اور عالمی طاقتوں سے بات چیت کے لیے وسیع گنجائش فراہم کرتی ہے۔
قطر کا رقبہ تقریباً 11,586 مربع کلومیٹر ہے، جو اسے خلیجی ممالک میں سب سے چھوٹا ملک بناتا ہے۔
تاہم فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہونے کے باعث قطر کا اثر و رسوخ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت جیسے بڑے عرب ممالک کے مقابلے میں بھی نمایاں ہے۔
عالمی سطح پر قطر نے ثالثی کا کردار بھی ادا کیا ہے، جس کی مثال 2020 میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ”دوحہ معاہدہ“ ہے، جس نے امن مذاکرات اور امریکی انخلا میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم اسی ثالثی کے ماحول میں 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحہ پر حملہ کیا، جسے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے امریکا کے 11 ستمبر کے بعد القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائیوں سے تشبیہ دی۔
نیتن یاہو نے قطر کو ”دہشت گردوں کی پناہ گاہ“ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر حماس کی قیادت کو ملک سے نہ نکالا گیا تو مزید کارروائیاں ہو سکتی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب قطر کو خطے میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ 2017 میں سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر پر دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور ایران سے قریبی تعلقات کے الزامات لگا کر تین سالہ بائیکاٹ کیا تھا۔
جو 2021 میں معاہدے کے ذریعے ختم ہوا۔ اس کے باوجود قطر نے اپنی آزاد خارجہ پالیسی برقرار رکھی۔
اب وہی عرب ممالک ایک بار پھر دوحہ میں اکٹھے ہیں تاکہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر لگائے گئے الزامات — بالخصوص حماس کو پناہ دینا اور مالی مدد فراہم کرنا — پر غور کریں۔
دوحہ پر حملے کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا اسرائیل اب بھی قطر کو خطے کا مؤثر ثالث مانے گا یا خطے میں نئی صف بندی جنم لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اجلاس غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
Comments are closed.